Tafseer-e-Jalalain - An-Nisaa : 15
وَ الّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَآئِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَیْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ١ۚ فَاِنْ شَهِدُوْا فَاَمْسِكُوْهُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰى یَتَوَفّٰهُنَّ الْمَوْتُ اَوْ یَجْعَلَ اللّٰهُ لَهُنَّ سَبِیْلًا
وَالّٰتِيْ : اور جو عورتیں يَاْتِيْنَ : مرتکب ہوں الْفَاحِشَةَ : بدکاری مِنْ : سے نِّسَآئِكُمْ : تمہاری عورتیں فَاسْتَشْهِدُوْا : تو گواہ لاؤ عَلَيْهِنَّ : ان پر اَرْبَعَةً : چار مِّنْكُمْ : اپنوں میں سے فَاِنْ : پھر اگر شَهِدُوْا : وہ گواہی دیں فَاَمْسِكُوْھُنَّ : انہیں بند رکھو فِي الْبُيُوْتِ : گھروں میں حَتّٰى : یہاں تک کہ يَتَوَفّٰىھُنَّ : انہیں اٹھا لے الْمَوْتُ : موت اَوْ يَجْعَلَ : یا کردے اللّٰهُ : اللہ لَھُنَّ : ان کے لیے سَبِيْلًا : کوئی سبیل
مسلمانو ! تمہاری عورتوں میں جو بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں ان پر اپنے لوگوں میں سے چار شخصوں کی شہادت لو۔ اگر وہ (ان کی بدکاری کی) گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ موت ان کا کام تمام کر دے یا خدا ان کے لیے کوئی اور سبیل (پیدا کرے)
آیت نمبر 15 تا 22 ترجمہ : اور تمہاری عورتوں میں سے جو بےحیائی، زنا، کی مرتکب ہوں ان پر اپنوں (مسلمانوں) میں سے چار آدمی گواہ کرلو، سو اگر وہ ان پر بےحیائی کی شہادت دیدیں تو ان کو گھروں میں نظر بند کردو اور ان کو لوگوں سے ملنے جلنے سے روک دو ، یہاں تک کہ موت (ملائکہ) اس کا خاتمہ کر دے یا اللہ ان کے لئے کوئی (اور) راہ نکال دے یعنی اس سے نکلنے کی کوئی صورت نکال دے یہ حکم ابتداء اسلام میں دیا گیا تھا پھر ان کے لئے باکرہ کو سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی کی صورت میں اور محصنہ کو رجم کی صورت میں سبیل نکالدی، اور حدیث شریف میں ہے کہ جب اللہ نے حد بیان فرمائی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : مجھ سے لے لو مجھ سے حاصل کرلو اللہ نے ان کیلئے سبیل نکالدی۔ (رواہ مسلم) اور تم میں سے یعنی مردوں میں سے جو دو (یعنی جوڑا) فحش کام کے مرتکب ہوں یعنی زنا یا لواطت کے، تو ان کو برا بھلا کہہ کر اور جوتے مار کر تکلیف پہنچاؤ، (وَالّذانِ ) نون کی تخفیف اور تشدید کے ساتھ ہے، پھر اگر دونوں فحش کام سے توبہ کرلیں اور عمل کی اصلاح کرلیں، تو ان کو نظر انداز کردو اور ان کو اذیت نہ پہنچاؤ، بیشک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے کی بڑا توبہ قبول کرنے والا (اور) اس پر رحم کرنے والا ہے اور یہ حکم امام شافعی کے نزدیک حد کے ذریعہ منسوخ ہے، اگر اس سے زنا مراد ہو اور اسی طرح اگر لواطت مراد ہو، البتہ مفعول کو ان کے نزدیک رجم نہیں کیا جائیگا، اگرچہ محصن ہی کیوں نہ ہو بلکہ کوڑے مارے جائیں گے اور جلاوطن کردیا جائیگا، اور لواطت مراد لینا زیادہ ظاہر ہے، (اَلّذان یاتیانھا) کی ضمیر تثنیہ کی دلیل کی وجہ سے، اور اول قول کا قائل وہ ہے جس نے (تثنیہ) سے زانی اور زانیہ کا ارادہ کیا ہے، اور اس کی تردید اس مِن بیانیہ سے ہوتی ہے جو کہ منکُمْ ، ضمیر مذکر کے ساتھ بیان کے لئے متصل ہے (اسی طرح) ان کا اذیت اور توبہ اور درگزر میں مشترک ہونا اور یہ مذکورہ تینوں چیزیں مردوں کے ساتھ مخصوص ہیں، اس لئئے کہ عورتوں کا حکم نظر بند کرنا سابق میں گزر چکا ہے، اور توبہ جس کا قبول کرنا اللہ کے ذمہ ہے یعنی توبہ کی قبولیت کو اللہ نے اپنے فضل سے اپنے ذمہ لازم کرلیا ہے وہ تو بس ان ہی لوگوں کی توبہ ہے جو معصیت نادانی سے کر بیٹھتے ہیں (بِجھَالَۃٍ ) حال ہے یعنی اپنے رب کی نافرمانی کرتے وقت نادانی کر بیٹھتے ہیں، اور پھر جلدی ہی حالت نزع پیش آنے سے پہلے ہی توبہ کرلیتے ہیں ایسے ہی لوگوں کی اللہ توبہ قبول کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے واقف اور ان کے ساتھ معاملہ کرنے میں باحکمت ہے اور ان کی توبہ نہیں جو برائیاں کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ ان میں سے جب کسی کی موت آجائے اور حالت نزع شروع ہوجائے اور حالت نزع میں پیش آنے والی چیزوں کا مشاہدہ کرلے تو کہ دے میں اب توبہ کرتا ہوں تو اس کا یہ توبہ کرنا نہ اس کے لئے مفید ہوگا اور نہ مقبول، اور نہ ان کی توبہ قبول ہوگی جو حالت کفر ہی ہر مرجائیں اور آخرت میں عذاب کے مشاہدہ کے وقت توبہ کرلیں، یہی لوگ ہیں جن کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے، اے ایمان والو تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم عورتوں کی ذات کے جبراً مالک بن جاؤ، کُرھاً ، فتحہ اور ضمہ کے ساتھ دو لغت ہیں، یعنی ان کو مجبور کرکے، یہ طریقہ (زمانہ) جاہلیت میں تھا کہ لوگ اپنے قرابتدار کی بیوی کے مالک ہوجاتے تھے، اگر چاہتے تو خود ہی ان سے بلا مہر نکاح کرلیتے یا ان کا نکاح کسی غیر سے کردیتے اور اس کا مہر خود لے لیتے، یا ان کو روکے رکھتے حتی کہ وہ اپنے مال کا فدیہ دیدے یا مرجائے تو اس کے مال کے وارث ہوجاتے تھے، تو ان کو اس حرکت سے منع کردیا گیا، اور نہ تمہارے لئے یہ جائز ہے کہ تم ان کو دوسروں سے نکاح کرنے سے، نقصان پہنچانے کی غرض سے روکو حالانکہ تم کو ان سے کوئی رغبت نہیں ہے، تاکہ تم ان سے اپنے دئیے ہوئے مہر کا کچھ حصہ وصول کرو بجز اس صورت کے کہ وہ صریح بدکاری کی مرتکب ہوں یاء کے فتحہ اور کسرہ کے ساتھ یعنی جو بالکل عیاں ہے یا وہ ظاہر کرنے والی ہے، یعنی زنا یا نافرمانی، تو تم کو حق ہے کہ ان کو تکلیف پہنچاؤ یہاں تک کہ وہ تم کو کچھ معاوضہ دیں اور خلع کریں۔ اور بیویوں کے ساتھ خوش اسلوبی سے گزر بسر کرو یعنی گفتگو اور نفقہ اور شب باشی میں حسن معاشرت کا مظاہرہ کرو، اگر تم ان کو ناپسند کرو تو صبر کرو کیا عجب کہ تم ایک شئی کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں کوئی بڑی بھلائی رکھ دے، اور ہوسکتا ہے کہ اللہ ان میں خیر رکھ دے بایں طور کہ وہ تم کو ان سے ولد صالح عطا فرمائے، اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی کرنا چاہو یعنی ایک کو طلاق دیکر اس کی جگہ دوسری کرنا چاہو، اور تم ان بیویوں میں سے کسی کو مال کا ایک ڈھیر یعنی مال کیثر مہر میں دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس مت لو، کیا تم ظلم اور کھلا گناہ ہونے کے باوجود اس کو لے لو گے (مُبَیّنًا) بمعنی، بیّنًا اور اس کا نصب حال کی وجہ سے ہے اور استفہام توبیخ کے لیے ہے، اور تم اسے کیسے لو گے ؟ یعنی کس طرح لوگے، استفہام انکاری ہے حالانکہ تم جماع کے ذریعہ آپس میں مل چکے ہو جو کہ مہر کو ثابت کرنے والا ہے اور ان عورتوں نے تم سے مضبوط عہد و پیمان لے رکھا ہے اور وہ عہد وہ ہے جس کا تم کو اللہ نے حکم دیا ہے وہ یہ کہ تم ان کو دستور کے مطابق اپنے پاس رکھو یا حسن اخلاق کے ساتھ ان کو چھوڑ دو ، اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے آباء نے نکاح کیا ہے، مَا، بمعنی مَنْ ، ہے مگر جو ہوچکا سو ہوچکا یعنی سابق میں تم سے ہوگیا وہ معاف ہے یہ یعنی ان سے نکاح کرنا بےحیائی اور ناراضگی کا سبب ہے یعنی اللہ کی ناراضگی کا سبب ہے اور وہ شدید ترین بغض ہے اور یہ بڑی بری راہ ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : مِن رجال المسلمین۔ سوال : فَاسْتَشْھِدْوا عَلَیْھِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ ، مفسر علام نے منکم کی تفسیر مِن رِجَالِ المسلمین سے کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں مخاطب نہیں ہیں حالانکہ قرآن میں عورتوں کو مردوں کے تابع قرار دے کر اکثر خطاب کیا گیا ہے مگر یہاں مرد ہی مخاطب ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟ جواب : ارْبَعَۃً ، یہاں اس بات کا قرینہ ہے کہ مخاطب مرد ہی ہیں نہ کہ عورتیں اسلئے کہ نجوکا مشہور قاعدہ ہے کہ عدد اگر مؤنث ہو تو اسکا معدود مذکر ہوتا ہے یہاں اَرْبعَۃ مؤنث ہے لہٰذا اس سے معدود مذکر متعین ہے اور وہ رجال ہے کہ نساء، اسی قرینہ کی وجہ سے علامہ سیوطی نے منکم کی تفسیر مَنْ رجالالمسلمین سے کی ہے۔ قولہ : ای الملائکۃ، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کلام خذف مضاف کے ساتھ ہے، ای یَتَوَفّٰھُنّ ملٰئِکۃ الموت۔ سوال : حذف مضاف کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ جواب : اَلتوفّی ھو الموت، اب عبارت یہ ہوگی حَتّٰی یُمیْتُھَنّ الموت، اور یہ درست نہیں ہے، اسلئے کہ اس میں اسناد الشئی الی نفسہ لازم آتی ہے نیز اس میں موت کا فاعل بننا لازم آتا ہے حالانکہ موت میں فاعل بننے کی صلاحیت نہیں ہے، اسلئے مفسر علام نے الملئکۃ، محذوف مان کر بتادیا کہ یَتَوَفّٰھُنّ کا فاعل موت نہیں ہے بلکہ ملئکۃ ہے، نیز اس صورت میں اسناد الشئ الی نفسہ کا اعتراض بھی ختم ہوگیا۔ قولہ : اِلیٰ اَنْ ، اس سے اشارہ کردیا کہ یَجْعَلَ کا عطف یَتَوَفّٰھُنّ پر ہے اور اسی وجہ سے یَجْعَلَ منصوب ہے۔ قولہ : یاتِیانِھَا۔ قولہ : مِن الرّجال دونوں جگہ مذکر کے صیغے استعمال کئے ہیں۔ قولہ : او اللواطۃ، لفظ لواطۃ، کا اضافہ امام شافعی کے مسلک کے مطابق ہے اس لئے کہ ان کے یہاں لواطت کی سزا وہی ہے جو زنا کی ہے احناف کے یہاں ایسا نہیں ہے بلکہ امیر کی رائے پر موقوف ہے وہ جو سزا مناسب سمجھے وہ دے سکتا ہے۔ تفسیر و تشریح مذکورہ دونوں آیتوں میں زنا کی سزا بیان کی گئی ہے، پہلی آیت صرف زانیہ عورتوں کے متعلق ہے جس میں ان کی سزا یہ ارشاد ہوئی ہے کہ انہیں تاحکم ثانی قید رکھا جائے، دوسری آیت میں زانی مرد اور زانیہ عورت کی سزا بیان کی گئی ہے، یعنی دونوں کو اذیت دی جائے، قرآن کریم کی ان دو آیتوں میں زنا کے لئے کوئی متعین حد بیان نہیں کی گئی بلکہ صرف اتنا کہا گیا ہے کہ ان کو اذیت دو اور زانیہ عورتوں کو گھروں میں بند کردو۔ تکلیف پہنچانے کا کوئی خاص طریقہ بیان نہیں کیا گیا، حکام کے صواب دید پر چھوڑ دیا گیا ہے ابن عباس ؓ فرماتے ہیں یہاں ” ایذاء “ کے معنی یہ ہیں کہ ان کو زبانی عار دلائی جائے اور شرمندہ کیا جائے اور عملی طور پر بھی جوتے وغیرہ سے ضرب تا دیبی کی جائے، حضرت ابن عباس ؓ کا یہ قول بھی بطور تمثیل معلوم ہوتا ہے اصل بات وہی ہے کہ حکام کی رائے پر چھوڑ دیا جائے۔ نزول کے اعتبار سے ان دو آیتوں کی ترتیب یوں ہے کہ شروع میں تو ان کو ایذاء دینے کا حکم نازل ہوا اس کے بعد خاص طور سے عورتوں کے لئے یہ حکم بیان کیا گیا کہ ان کو گھروں میں محبوس رکھا جائے یہاں تک کہ وہ عورت مرجائے اگر اس کی زندگی ہی میں آئندہ آنے والا حکم آجائے گا تو اس کو نافذ کردیا جائے گا چناچہ بعد میں سورة نور میں وہ سبیل بھی بیان کردی گئی جس کا اللہ جل شانہ نے اس آیت میں وعدہ فرمایا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے سبیل کی تفسیر اس طرح فرمائی ہے ” الرجم للثیب والجلد للبکر “ شادی شدہ کے حق میں سنگساری اور غیر شادی کیلئے کوڑے۔ (بخاری کتاب التفسیر) ۔ پہلی آیت میں فرمایا جن عورتوں سے زنا کا صدور ہوجائے تو اس کے ثبوت کے لئے چار مرد گواہ طلب کئے جائیں، یعنی جن حکام کے پاس یہ معاملہ جائے تو ان کو چاہیے کہ چار مردوں کی گواہی طلب کریں جو شہادت کی اہلیت رکھتے ہوں۔ زنا کے گواہوں میں شریعت نے دو طریقہ سے سختی کی ہے چونکہ یہ معاملہ بہت اہم ہے، اس سے عزت اور عفت مجروح ہوتی ہے اور خاندان کے لئے ننگ و عار کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے اس لیے اولاً تو یہ شرط لگائی کہ گواہ صرف مرد ہوں گے، ثانیاً گواہ بھی چار مردوں کا ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے، ظاہر ہے کہ یہ شرط نہایت سخت ہے، جس کا مہیا ہونا شاذ و نادر ہی ہوسکتا ہے، یہ سختی اسلئے کی گئی ہے کہ کہیں عورت کا شوہر اس کی والدہ یا بہن یا دوسری بیوی ذاتی پرخاش کی وجہ سے خواہ مخواہ الزام نہ لگائیں، یا دوسرے بدخوار دشمنی کی وجہ سے الزام اور تہمت لگانے کی جرأت نہ کرسکیں، اس لئے کہ اگر چار عینی شاہدوں سے کم شہادت دیں گے تو ان کی شہادت قابل قبول نہ ہوگی بلکہ الٹا ان کو ہی حدقذف کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چار گواہوں کی حکمت : بعض اکابر نے چار گواہوں کی ضرورت و مصلحت بیان کرتے ہوئے فرمایا کے اس معاملہ میں چونکہ دو افراد ملوث ہوتے ہیں دو سے کم میں یہ معاملہ وجود میں نہیں آسکتا تو گویا یہ ایک معاملہ تقدیراً دو معاملوں کے حکم میں ہے، اور ہر معاملہ دو گواہوں کا تقاضہ کرتا ہے لہٰذا اس کے لئے چار گواہ ضروری ہیں۔ آیت کے آخر میں فرمایا کہ اگر وہ توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان سے تعرض مت کرو اس کا مطلب یہ ہے کہ سزا پانے کے بعد اگر انہوں نے توبہ کرلی اور اپنے اعمال کی اصلاح کرلی تو اب انہیں ملامت مت کرو اور مزید سزا مت دو ، یہ مطلب نہیں کہ توبہ سے سزا بھی معاف ہوگئی اسلئے کہ یہ توبہ سزا کے بعد مذکور ہے جیسا کہ فاء کی تفریع سے ظاہر ہے، ہاں اگر توبہ نہ کی ہو تو سزا کے بعد ملامت کرسکتے ہیں۔ مفسر علام کو ان دونوں آیتوں کے ظاہری فرق سے غلط فہمی ہوئی ہے کہ پہلی آیت منکوحہ عورتوں کے بارے میں ہے اور دوسری آیت غیر شادی شدہ مرد و عورت کے بارے میں ہے مگر اس کی وزنی دلیل نہیں ہے یہ ایک کمزور تفسیر ہے، اور اس سے بھی زیادہ کمزور بات وہ ہے جو اصفہانی نے لکھی ہے کہ پہلی آیت عورت کے ناجائز تعلق کے بارے میں ہے اور دوسری آیت مرد اور مرد کے ناجائز تعلق کے بارے میں ہے، شاید اصفہانی کی نظر اس حقیقت کی طرف نہیں گئی کہ قرآن انسانی زندگی کے لئے قانون و اخلاق کی شاہ راہ بتاتا ہے اور ان ہی مسائل سے بحث کرتا ہے جو شاہ راہ پر پیش آتے ہیں رہی گلیوں اور پگڈنڈیوں کی بات تو قرآن ان کی طرف توجہ نہیں کرتا اور ان پر پیش آنے والے ضمنی مسائل سے بحث کرنا کلام شاہانہ کے لئے موزوں بھی نہیں ہے، ایسی چیزوں کو اجتہاد کے لئے چھوڑ دیا ہے یہی وجہ ہے کہ عہد نبوت کے بعد جب یہ سوال پیدا ہوا کہ مرد اور مرد کے ناجائز تعلق پر کیا سزا دی جائے تو صحابہ کرام میں سے کسی نے بھی یہ نہ سمجھا کہ سورة نساء کی اس آیت میں اس کا حکم موجود ہے۔ غیر فطری طریقہ سے قضاء شہوت کا حکم : قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) تعالیٰ تفسیر مظہری میں لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک ” اَلَّذِانِ یَاآتِیَانِھَا “ کا مصداق وہ لوگ ہیں جو غیر فطری طریقہ پر قضاء شہوت کرتے ہیں یعنی استلذاذ بالمثل کے مرتکب ہوتے ہیں۔ قاضی صاحب کے علاوہ نے بھی اس قول کو لیا ہے قرآن مجید میں چونکہ لفظ الّذَانِ یَأتِیانِھَا، موصول اور صلہ دونوں مذکر کے لحاظ سے ہیں اسلئے ان حضرات کا یہ قول بعید نہیں ہے، اور جن حضرات نے زانی اور زانیہ مراد لیا ہے انہوں نے بطور تغلیب مذکر کا صیغہ زانیہ کیلئے بھی شامل رکھا ہے تاہم موقع کی مناسبت سے استلذاذ بالمثل کی حرمت و شدت اور اس کی تعزیر کا ذکر اس جگہ بےجا نہ ہوگا، اس قبیح فعل کیلئے کسی متعین حد کے مقرر کرنے میں تو فقہاء کا اختلاف ہے جس کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے تاہم اس کیلئے شدید سے شدید سزائیں منقول ہیں مثلاً آگ میں جلا دینا، دیوار سے گرا کر مار دینا، سنگسار کردینا، تلوار سے قتل کردینا۔ احادیث و آثار سے اس سلسلہ میں جو کچھ ثابت ہے اس میں سے بطور نمونہ کچھ نقل کیا جاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے سات قسم کے لوگوں پر سات آسمانوں کے اوپر سے لعنت بھیجی ہے اور ان سات میں سے ایک پر تین تین دفعہ لعنت بھیجی ہے اور باقی پر ایک دفعہ، فرمایا ملعون ہے وہ شخص جو قوم لوط والا عمل کرتا ہے۔ (الترغیب والترھیب) حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے : جس کو تم قوم لوط کی طرح غیر فطری حرکت کرتا ہوا دیکھ لو تو تم فاعل دونوں کو مار ڈالو۔ حافظ ذکی الدین نے ترغیب و ترہیب میں لکھا ہے کہ چار خلفاء ابوبکر صدیق ؓ ، حضرت علی ؓ ، حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ اور ہشام بن عبد الملک (رح) تعالیٰ نے اپنے زمانوں میں غیر فطری حرکت والوں کو آگ میں جلا ڈالا۔ مندرجہ بالا روایت استلذاذ بالجنس سے متعلق تھی، روایات میں عورتوں کے ساتھ غیر فطری فعل کرنے پر بھی شدید ترین وعیدیں آئی ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس مرد کی طرف رحمت کی نگاہ سے نہیں دیکھے گا جو مرد عورت کے ساتھ غیر فطری فعل کرے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : وہ شخص ملعون ہے جو غیر فطری طریقہ سے بیوی کے ساتھ جماع کرتا ہے۔ لفظ سُوْءًا اور توبہ کی وضاحت : کیا قصداً کیا ہوا گناہ معاف نہیں ہوتا ؟ سابقہ آیت سے طبائع غیر سلیم کے لئے ہر قسم کی بدعملی کی گنجائش نکل سکتی ہے، اور وہ اپنے دل میں یہ کہہ سکتے تھے کہ جب توبہ قبول ہو ہی جائے گی تو پھر اطمینان سے ہم ہر قسم کے فسق و فجور پڑے رہ سکتے ہیں، جب مرنے لگیں گے تو بہ کرلیں گے، اس خدشہ کو دور کرنے کے لئے ضرورت تھی کہ قبول توبہ کے قیود و شرائط کو صاف کردیا جائے، سُوْءً ایک جامع لفظ ہے گناہ کبیرہ اور صغیرہ دونوں کو شامل ہے۔ شریعت میں توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ ماضی پر ندامت ہو اور مستقبل کیلئے ترک کا عزم ہو، اور یہاں توبہ سے مراد قبول توبہ ہے۔ توبہ کے معنی پلٹنے اور رجوع کرنے کے ہیں گناہ کے بعد بندہ کا خدا سے توبہ کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ ایک غلام جو اپنے آقا کا نافرمان بن کر اس سے منہ پھیر گیا تھا اب اپنے کئے پر پشیمان ہے اور اطاعت و فرمانبرداری کی طرف پلٹ آیا ہے، اللہ نے اس آیت میں فرمایا ہے کہ میرے یہاں معافی صرف ان بندوں کیلئے ہے جو قصداً نہیں بلکہ نادانی کی بنا پر قصور کرتے ہیں اور جب آنکھوں پر سے جہالت کا پردہ ہٹتا ہے تو شرمندہ ہو کر اپنے قصور کی معافی مانگ لیتے ہیں ایسے بندے جب بھی اپنی غلطی پر نادم ہو کر اپنے آقا کی طرف پلٹیں گے اس کا دروازہ کھلا پائیں گے۔ آیت میں جہالت سے یہ مراد نہیں ہے کہ اس کو گناہ ہونے کی خبر نہ ہو یا گناہ کا قصد وار ادہ نہ ہو بلکہ مراد یہ ہے کہ اس گناہ کے انجام بد اور اخروی عذاب سے غفلت اس گناہ پر اقدام کا سبب ہوگئی، اگرچہ گناہ کو گناہ جانتا تھا اور قصداً ارادہ بھی کیا۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس جگہ جہالت کا لفظ حماقت اور بےوقوفی کے معنی میں ہے، اس کی نظیر سورة یوسف میں ہے، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں سے فرمایا ” ھَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِیُوْسُفَ وَاَخِیْہِ اِذْ اَنْتُمْ جَاھِلُوْنَ “ اس میں بھائیوں کو جاہل کہا گیا ہے، حالانکہ انہوں نے جو کام کیا وہ کسی خطاء یا نسیان سے نہیں بلکہ قصداً جان بوجھ کر کیا تھا مگر اس فعل کے انجام سے غفلت کے سبب ان کو جاہل کہا گیا ہے۔ ابو العالیہ اور قتادہ نے نقل کیا ہے کہ صحابہ کرام اس پر متفق تھے کہ ” کُلُ ذَنْبٍ اَصَابَہٗ عَبدٌ فَھَوَ جَھَالَۃ عمدًا کان اوغیرہٗ “ یعنی بندہ جو گناہ کرتا ہے خواہ بلاقصد ہو یا بالقصد بہرحال جہالت ہے۔ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ ، آیت مذکور میں ایک بات قابل غور یہ ہے کہ اس میں قبول توبہ کیلئے یہ شرط بتلائی کی قریب زمانہ ہی میں توبہ کرلے، توبہ کرنے میں دیر نہ کرے اس میں قریب کا کیا مطلب ہے ؟ اور کتنا زمانہ قریب میں داخل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی تفسیر ایک حدیث میں خود اس طرح آئی ہے۔ اِنّ اللہ یَقْبَلُ توبَۃَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِر، اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتے ہیں جب تک اس پر موت اور نزع روح کا غر غرہ طاری نہ ہوجائے، قریب کی اس تفسیر سے جو خود رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی پوری عمر کا زمانہ قریب ہی میں داخل ہے، موت سے پہلے پہلے جو توبہ کرلی جاوے قبول ہوگی، البتہ موت کے وقت کی توبہ قبول نہیں۔ ایں درگہ ما درگہ نومیدی نیست صدبار اگر توبہ شکستی باز آ البتہ توبہ ان کے لئے نہیں ہے جو اپنے خدا سے بےخوف اور بےپروا ہو کر تمام عمر گناہ کئے چلے جائیں اور پھر عین اس وقت جبکہ موت کا فرشتہ سامنے آکھڑا ہو معافی مانگنے لگیں، اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اسی وقت تک قبول کرتا ہے جب تک آثار موت شروع نہ ہوں کیونکہ امتحان کی مہلت جب پوری ہوگئی اور کتاب زندگی ختم ہوچکی صحیفہ اعمال بند کردیا گیا تو اب پلٹنے کا کونسا موقعہ ہے۔ اسی طرح جب کوئی شخص کفر کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوجائے اور دوسری زندگی کی سرحد میں داخل ہو کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ معاملہ اس کے برعکس ہے جو وہ دنیا میں سمجھتا رہا تو اس وقت معافی مانگنے کا کوئی موقع نہیں۔ امام غزالی نے احیاء العلوم میں فرمایا ہے کہ گناہوں پر اقدام کے تین درجے ہیں، (1) یہ کہ کسی گناہ کا کبھی ارتکاب نہ ہو یہ تو فرشتوں کی خصوصیت ہے یا انبیاء (علیہم السلام) کی، (2) یہ کہ گناہوں پر اقدام کرے اور پھر ان پر اصرار جاری رکھے نہ ان پر کبھی ندامت ہو اور نہ کبھی ترک کا خیال آئے، یہ درجہ شیطان کا ہے۔ (3) یہ ہے کہ اگر گناہ سرزد ہوجائے تو فوراً اس پر ندامت ہو اور آئندہ اس کے ترک کا پختہ عزم ہو، یہ درجہ انسان کا ہے۔
Top