Jawahir-ul-Quran - Al-Faatiha : 3
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِۙ
الرَّحْمٰنِ : جو بہت مہربان الرَّحِيم : رحم کرنے والا
بیحد مہربان نہایت رحم والاف 5
5: الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ یہ دونوں صفت مشبہ کے صیغے ہیں اور دونوں میں مبالغہ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اور دونوں رحم سے مشتق ہیں مفسرین کرام نے دونوں لفظوں کے مفہوم میں مختلف طریقوں سے فرق بیان فرمایا ہے۔ بعض نے لکھا ہے کہ کہ رحمان دنیا کے اعتبار سے ہے اور رحیم آخرت کے اعتبار سے یعنی دنیا میں اس کی رحمت مومنوں اور کافروں کے لیے عام ہے۔ دنیا میں دنیوی فوائد سے مومن اور کافر یکساں طور پر فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ اس کی صفت رحمان کا اثر ہے اور آخرت میں اس کی رحمت مومنوں کے ساتھ مخصوص ہوگی اور کافر اس سے محروم رہیں گے۔ یہ اس کی صفت رحیم کا اثر ہوگا۔ جاء فی الدعاء یا رحمن الدنیا لانہ یعم المؤمن والکافر ورحیم الاخرۃ لانہ یخص المؤمن (مدارک ص 5 ج 1) ۔ حضرت شیخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دونوں صفتوں میں ایک نہایت لطیف فرق بیان فرمایا کہ رحمان اس موصوف کو کہتے ہیں جو بالفعل رحمت کر رہا ہو اور جس کی رحمت کائنات کے ذرہ ذرہ کو شامل ہو۔ اور رحیم (صیغہ صفت مشبہ) اس ذات کو کہتے ہیں رحم جس کی صفت لازمہ اور خصوصیت ذاتیہ ہو صفت عارضہ نہ ہو تو مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ جو بالفعل ہر آن میں اپنی ساری مخلوق پر رحم فرما رہا ہے۔ یہ رحم اس کی ذات پاک کو لازم ہے اور اس کی صفت ذاتیہ ہے۔ اسی نکتہ کی طرف اشارہ کرنے کے لیے رحمان کے بعد رحیم کو بھی ذکر کیا گیا۔ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ کے بعدالرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِکا ذکر کر کے اس طرف اشارہ فرمایا کہ نظام ربوبیت کے بعد تمام نظام عالم اللہ تعالیٰ کی صفت رحم کا ظہور ہے گویا یہ تمام کارگاہ عالم اور اور یہ ساری کائنات صرف اس لیے بنی ہے تاکہ اس سے ہمیں فائدہ پہنچے اور ہماری ضرورتیں پوری ہوں اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی جگہ تفصیل سے بیان فرمایا ہے ایک جگہ ارشاد ہے۔ وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مِّنْهُ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ (جاثیہ رکوع 2) (اور تابع کیا اس نے تمہارے (فائدے) کے لیے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں سارا اپنے حکم سے یقیناً اس میں سوچنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں) نہ صرف زمین و آسمان کے درمیانی خلاء میں بلکہ زمین کے پیٹ میں بھی اس نے اپنی رحمت ونعمت کے بیشمار خزانے اپنی مخلوق کے لیے مخفی کر رکھے ہیں۔ جو محض اس کی شفقت سے اور مہربانی سے زمین کی سطح پر نمودار ہوتے ہیں۔ اور اس کی ساری مخلوق ان سے فائدہ اٹھاتی ہے زمین کی سطح پھلوں، پھولوں، غلہ، ترکاریوں اور میووں سے مالا مال ہے اور پانی کے شفاف اور شیریں دشمے اس کے پیٹ سے ابل کر اس کی سطح پر بہ رہے ہیں۔ اور زمین کی گہرائیاں سونے چاندی اور دیگر قیمتی معدنیات سے پر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ وَهُوَ الَّذِيْ مَدَّ الْاَرْضَ وَجَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ وَاَنْهٰرًا ۭ وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِيْهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ ۝ وَفِي الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّجَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِيْلٌ صِنْوَانٌ وَّغَيْرُ صِنْوَانٍ يُّسْقٰى بِمَاۗءٍ وَّاحِدٍ ۣ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰي بَعْضٍ فِي الْاُكُلِ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ ( سورة رعد رکوع 1) (اور وہ ایسا ہے کہ اس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ اور نہریں پیدا کیں اور اس میں ہر قسم کے پھلوں سے دو دو قسم کے پیدا کیے، شب کو دن سے چھپا دیتا ہے، بیشک ان (مذکورہ بالا امور) میں سوچنے والوں کے لیے (توحید کے) دلائل موجود ہیں اور زمین میں پاس پاس مختلف خطے اور انگوروں کے باغ ہیں اور کھیتیاں ہیں اور کھجوریں ہیں جن میں سے بعضی تو اوپر جا کر دو تنے ہوجاتی ہیں۔ اور بعضی میں دو تنے نہیں ہوتے۔ سب کو ایک طرح کا پانی دیا جاتا ہے اور ہم ایک کو دوسرے پر پھلوں میں فوقیت دیتے ہیں ان امور میں (بھی) سمجھداروں کے لیے (توحید) کے دلائل ہیں) خشکی کے علاوہ تری میں بھی اس کی رحمت عامہ کے آثار نمایاں اور ہویدا ہیں مثال کے طور پر سمندروں کی سطح جہازوں اور کشتیوں کے ذریعے نقل و حرکت اور آمدورفت کے لیے ایک اعلی شاہراہ کا کام دیتی ہے۔ اور اس کی گہرائی موتیوں اور دیگر مفید اور قیمتی اشیاء سے مالا مال ہے۔ نیز دریاؤں اور سمندروں سے مچھلی کا تازہ بتازہ گوشت حاصل ہوتا ہے۔ جو انسان کے لیے بہترین غذا ہے۔ وَهُوَ الَّذِيْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْكُلُوْا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا وَّتَسْتَخْرِجُوْا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُوْنَهَا ۚ وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيْهِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ (نحل رکوع 2) (اور وہ ایسا ہے کہ اس نے دریا کو بھی مسخر بنایا کہ اس میں سے بھی تازہ تازہ گوشت کھاؤ اور اس میں سے (موتیوں کا) گہنا نکالو جسے تم پہنتے ہو اور تو کشتیوں کو دیکھتا ہے کہ اس میں پانی کو چیرتی ہوئی چلی جارہی ہیں۔ اور تاکہ تم خدا کی (پیدا کی ہوئی) روزی تلاش کرو اور شکر کرو) ۔ ان آیتوں کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اس جہان کا ذرہ ذرہ پیدا کر کے پورے نظام عالم کو اپنے نظام ربوبیت کے تحت رکھا ہوا ہے اور اس کا نظام ربوبیت اس کے رحم وکرم اور اس کی رحمت و شفقت کے تحت چل رہا ہے۔ پورے نظام عالم کا ایک ذرہ بھی ایک لمحہ کے لیے بھی اس کی رحمت سے بےنیاز نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح یہ خشکی اور تری کی ساری نعمتیں عالم جسمانی کی تربیت اور پرورش کے لیے پیدا فرمائی ہیں۔ اسی طرح اس کی رحمت بےپایاں نے عالم روحانی کی ترقی اور نشوونما کے لیے بھی انتظام فرمایا ہے اور دنیا میں انبیاء (علیہم السلام) اور آسمانی کتابوں کے ذریعے عالم روحانی کی غذا کا بندوبست کیا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی بعثت اور اپنے آخری پیغام قرآن مجید کی تعلیم کو خصوصیت سے اپنی رحمت کے ساتھ متعلق فرمایا چانچہ ارشاد ہے۔ وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ (انبیاء :107) رَحْمَةً ۔ اَرْسَلْنٰكَ کا مفعول لہ ہے یعنی ہم نے آپ کو اس لیے بھیجا ہے تاکہ سارے عالم پر رحم کریں۔ یا رَحْمَةًمصدر بمعنی صیغہ صفت اَرْسَلْنَا کے فاعل یا كَضمیر مفعول یا دونوں سے حال ہے۔ مطلب ظاہر ہے۔ دوسری جگہ ارشاد ہے۔ اَلرَّحْمٰنُ ۝ۙعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ ۝ۭخَلَقَ الْاِنْسَانَ ۝ۙعَلَّمَهُ الْبَيَانَ (الرحمن : 1-4) (رحمان نے قرآن کی تعلیم دی۔ اس نے انسان کو پیدا کیا (پھر) اس کو بولنا سکھایا۔ اس کی ربوبیت اور رحمت کس قدر عام اور حاوی ہے۔ کہ ایک طرف روح اور جسد کا تعلق باقی رکھنے کے لیے بیشمار مادی غذائیں مہیا کیں۔ اور دوسری طرف روح کی نشوونما کے لیے اعلی درجہ کی روحانی غذائیں مہیا فرمائی۔ ۭفَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ
Top