Jawahir-ul-Quran - Al-Kahf : 13
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْكَ نَبَاَهُمْ بِالْحَقِّ١ؕ اِنَّهُمْ فِتْیَةٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّهِمْ وَ زِدْنٰهُمْ هُدًىۗۖ
نَحْنُ : ہم نَقُصُّ : بیان کرتے ہیں عَلَيْكَ : تجھ سے نَبَاَهُمْ : ان کا حال بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک اِنَّهُمْ : بیشک وہ فِتْيَةٌ : چند نوجوان اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے بِرَبِّهِمْ : اپنے رب پر وَزِدْنٰهُمْ هُدًى : اور ہم نے اور زیادہ دی انہیں۔ ہدایت
ہم سنا دیں تجھ کو13 ان کا حال تحقیقی وہ کئی جوان ہیں14 کہ یقین لائے اپنے رب پر اور زیادہ دی ہم نے ان کو سوجھ
13:۔ اب یہاں سے اصحاب کہف کے واقعہ کی تفصیل شروع ہوتی ہے گویا کہ پہلے شبہہ اولیٰ کا اجمالی جواب ذکر کیا گیا اور یہاں اسے تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ شروع فی تفصیل ما اجمل فیما سلف ای نحن نخبرک بتفصیل خبرھم الذی لہ شان و خطر (روح ج 5 ص 216 ابو السعود ج 5 ص 685) ۔ 14:۔ پہلے اجمالی ذکر میں اصحاب کہف کے مومن و موحد ہونے کی طرف اشارہ تھا۔ یہاں ان کے ایمان، توحید پر ان کی استقامت اور شرک سے ان کی بیزاری کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اس تفصیل میں چار چیزیں مذکور ہیں۔ (1) ۔ ” امنوا بربھم “ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لے آئے۔ (2) ۔ ” و زدنھم ھدی “ انہیں ایمان کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے کر ان کو ہدایت میں اور ترقی دیدی۔ (3) ۔ ” و ربطنا علی قلوبہم اذا قاموا “۔ ظرف ” ربطنا “ سے متعلق ہے۔ جب ظالم و جابر اور مشرک بادشاہ کی طلبی پر وہ اس کے دربار میں اس کے سامنے کھڑے ہوئے اور بادشاہ نے ان کو دین توحید چھوڑنے اور بت پرستی اختیار کرنے کا حکم دیا اور بصورت دیگر انہیں قتل کی دھمکی دی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو مضبوط ومطمئن کردیا۔ اور انہیں اپنے دین پر ثابت قدمی اور استقامت عطا فرمائی۔ اذ قامو بین یدی الجبار وھو دقیانوس۔ چناچہ انہوں نے سر دربار علی رؤوس الاشہاد توحید کا اعلان اور شرک سے بیزاری کا اظہار کردیا اور صاف کہہ دیا ” ربنا رب السموات والارض “ ہمارا پروردگار اور مالک وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ومالک ہے۔ ” لن ندعوا من دونہ الھا “ جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہو وہی ساری کائنات کا خالق ومالک ہوسکتا ہے اور وہی عبادت و پکار کا مستحق ہوسکتا ہے۔ اس لیے ہم اللہ کے سوا کسی خود ساختہ معبود اور کسی جھوٹے ٹھاکر کو کبھی پکارنے کے لیے تیار نہیں ہیں ” لقد قلنا اذا شططا “ کیونکہ اگر ہم ایسا کریں تو یہ نہایت ہی بےجا اور حد سے بڑھی ہوئی بات ہوگی۔ (4):۔ ” ھؤلاء قومنا الخ “ ہماری قوم کے ان مشرکوں نے خود ساختہ ٹھاکروں کو اللہ کے معبود بنا رکھا ہے۔ اگر ان کے پاس کوئی واضح ثبوت ہے۔ تو کیوں پیش نہیں کرتے۔ ” فمن اظلم من افتری علی اللہ کذبا “ بھلا شرک جیسی بری اور قبیح لذاتہ بات کے حق میں کیا ثبوت پیش کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے جو شخص خدا کے ساتھ کسی کو شریک بناتا ہے۔ وہ خدا پر افترا کرتا ہے۔ اور وہ سب سے بڑا ظالم ہے۔ کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ اصحاب کہف کے ایمان و اعتقاد کی اس تفصیل سے معلوم ہوگیا کہ وہ تو خود اللہ تعالیٰ ہی کو اپنا مالک و کارساز سمجھتے تھے۔ اس کی عبادت کرتے اور اسی کے نام کی نذریں دیتے۔ اور اسے ہی پکارتے تھے۔ وہ شرک اور غیر اللہ کی عبادت اور پکار سے سخت بیزار تھے۔ وہ اپنے اس ایمان پر اتنے مضبوط تھے کہ ایک ظالم و جابر بادشاہ کے سامنے بھی انہوں نے اس کا اعلان کردیا۔ بھلا جن کا اپنا یہ حال ہو، پھر ان کی عبادت کرنا، ان کو پکارنا اور ان کے تنام کی نذریں نیازیں دینا سراسر حماقت اور عقل کے خلاف ہے۔
Top