Jawahir-ul-Quran - Al-Kahf : 23
وَ لَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْءٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًاۙ
وَلَا تَقُوْلَنَّ : اور ہرگز نہ کہنا تم لِشَايْءٍ : کسی کام کو اِنِّىْ : کہ میں فَاعِلٌ : کرنیوالا ہوں ذٰلِكَ : یہ غَدًا : گل
اور نہ کہنا کسی کام کو27 کہ میں یہ کروں گا کل کو
27:۔ یہ جملہ معترضہ ہے ہر واعظ اور ناصح حکیم کا یہ طریقہ ہے کہ اگر وعظ کے دوران میں وعظ کے کسی حصہ پر کوئی ایسی ضروری بات متفرع ہوسکے جو سامعین سے متعلق ہو۔ تو وہ سلسلہ وعظ کو بند کر کے سامعین کو اس ضروری بات کی طرف متوجہ کرتا ہے تاکہ اسے خوب یاد رکھ لیا جائے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہے۔ اصحاب کہف کا واقعہ بیان کرنے کے بعد آنحضرت ﷺ سے خطاب کر کے فرمایا کہ جو کام آپ کو کل کے دن کرنا ہو۔ اسے آپ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی مشیت سے متعلق فرما دیا کریں۔ اور اس کے ساتھ انشاء اللہ ضرور کہا کریں۔ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علی ہو سلم سے یہ بھول ہوگئی تھی۔ کہ جب مشرکین قریش نے بطور امتحان آپ سے تین باتیں پوچھیں تو آپ نے کل کو جواب دینے کا وعدہ فرمایا۔ اور انشاء اللہ نہ کہا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کا واقعہ بیان کرنے کے بعد یاد دہانی فرمائی کہ انسان اپنے دل میں کچھ ارادہ کرتا ہے مگر ہوتا وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہو اور جو کچھ ہوتا ہے محض اللہ کے ارادے اور اس کی مشیت سے ہوتا ہے چناچہ اصحاب کہف جب غار میں داخل ہوئے تو ان کا ارادہ یہ تھا کہ تھوڑی دیر آرام کر کے پھر اٹھیں گے مگر ان کے ارادے کے خلاف اللہ تعالیٰ نے ان کو تین سو نو سال سلائے رکھا۔ اسی طرح انہوں نے اپنے ساتھی کو اس ارادے سے شہر میں بھیجا کہ وہ کھانا خرید کر لائے۔ مگر ان کے ارادے کے برعکس کچھ اور ہی رونما ہوگیا۔ علی ھذا آپ ﷺ کا ارادہ یہ تھا کہ آج یا کل وحی کے ذریعے قریش کے سوالوں کا جواب مل جائے گا تو کل ان کو بتا دوں گا مگر اس کے برعکس ہوا یہ کہ پورے پندرہ یوم تک وحی نہ آئی اس لیے آپ ہر معاملے کو مشیت الٰہی کے سپرد فرمادیا کریں۔
Top