Jawahir-ul-Quran - Al-Kahf : 27
وَ اتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ١ؕۚ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ١۫ۚ وَ لَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا
وَاتْلُ : اور آپ پڑھیں مَآ اُوْحِيَ : جو وحی کی گئی اِلَيْكَ : آپ کی طرف مِنْ : سے كِتَابِ : کتاب رَبِّكَ : آپ کا رب لَا مُبَدِّلَ : نہیں کوئی بدلنے والا لِكَلِمٰتِهٖ : اس کی باتوں کو وَ : اور لَنْ تَجِدَ : تم ہرگز نہ پاؤگے مِنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا مُلْتَحَدًا : کوئی پناہ گاہ
اور پڑھ جو وحی ہوئی33 تجھ کو تیرے رب کی کتاب سے کوئی بدلنے والا نہیں اس کی باتیں34 اور کہیں نہ پائے گا تو اس کے سوائے چھپنے کو جگہ
33:۔ دلیل وحی :۔ اصحاب کہف کا واقعہ بیان کرنے کے بعد اس کا ثمرہ بیان فرمایا۔ جس میں دو باتیں واضح کی گئیں اول یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عالم الغیب اور حاضر و ناظر نہیں دوم یہ کہ اللہ کے سوا کوئی مختار و متصرف نہیں۔ گویا کہ یہ ایک دعوی ہے جو دو شقوں پر مشتمل ہے اب یہاں سے اس پر دلیل وحی پیش کی گئی ہے۔ ” اتل “ امر ایجاد فعل کے لیے نہیں بلکہ ابقاء فعل کے لیے ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ آپ اللہ کی وحی سے دلائل توحید پڑھ کر سنانا شروع کردیں۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ کی وحی اور اللہ کی کتاب سے جس طرح آپ پہلے مسئلہ توحید بیان کر رہے تھے اسی طرح اب بھی کرتے رہیں اور اس سلسلے کو جاری رکھیں۔ ای لازم تلاوۃ ذلک علی اصحابک (روح ج 15 ص 257) امرہ (علیہ السلام) بالمداومۃ علی دراستہ (ابو السعود ج 5 ص 702) ۔ 34:۔ اللہ تعالیٰ کے کلمات اور اس کی آیات جن میں مسئلہ توحید بیان کیا گیا ہے وہ اٹل اور محکم ہیں اور انہیں کوئی بدل نہیں سکتا۔ ” و لن تجد من دونہ ملتحدا “ واؤ تعلیل کے لیے ہے اور یہ جملہ ماقبل کی علت ہے یعنی جب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں۔ اور اس کے سوا کوئی مختار و متصرف نہیں تو اس کی آیات کو بھی کوئی بدلنے والا نہیں۔ ” ملتحدا “ کے معنی جائے پناہ اور ملجا و ماوی کے ہیں یعنی اگر بالفرض آپ یا کوئی اور اللہ کے کلمات میں تبدل و تغیر کا ارادہ کرے تو اسے اللہ کے عذاب سے بچنے کے لیے اللہ کے سوا کہیں پناہ نہیں ملے گی۔ ای ملجا تعدل الیہ ان ہممت بذالک (مدارک ج 3 ص 9) ۔
Top