Jawahir-ul-Quran - Al-Kahf : 28
وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰكَ عَنْهُمْ١ۚ تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ۚ وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ وَ كَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا
وَاصْبِرْ : اور روکے رکھو نَفْسَكَ : اپنا نفس (اپنا آپ) مَعَ : ساتھ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ : وہ لوگ جو پکارتے ہیں رَبَّهُمْ : اپنا رب بِالْغَدٰوةِ : صبح وَالْعَشِيِّ : اور شام يُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں وَجْهَهٗ : اس کا چہرہ (رضا) وَلَا تَعْدُ : نہ دوڑیں، نہ پھریں عَيْنٰكَ : تمہاری آنکھیں عَنْهُمْ : ان سے تُرِيْدُ : تم طلبگار ہوجاؤ زِيْنَةَ : آرائش الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَلَا تُطِعْ : اور کہا نہ مانو مَنْ : جو۔ جس اَغْفَلْنَا : ہم نے غافل کردیا قَلْبَهٗ : اس کا دل عَنْ : سے ذِكْرِنَا : اپنا ذکر وَاتَّبَعَ : اور پیچھے پڑگیا هَوٰىهُ : اپنی خواہش وَكَانَ : اور ہے اَمْرُهٗ : اس کا کام فُرُطًا : حد سے بڑھا ہوا
اور روکے رکھ اپنے آپ کو ان کے ساتھ جو پکارتے ہیں اپنے رب کو35 صبح اور شام طالب ہیں اس کے منہ کے اور نہ دوڑیں تیری آنکھیں ان کو چھوڑ کر تلاش میں رونق زندگانی36 دنیا کی اور نہ کہا مان اس کا جس کا دل غافل کیا ہم نے اپنی یاد سے اور پیچھے پڑا ہوا ہے اپنی خوشی کے اور اس کا کام ہے حد پر نہ رہنا
35:۔ یہ تیسرا امر متفرع ہے۔ یہ آنحضرت ﷺ کے لیے تسلیہ ہے یعنی آپ صبر و استقامت کے ساتھ مسئلہ توحید کی اشاعت کرتے رہیں اور جو لوگ مسئلہ توحید مان چکے اور محض اللہ کی رضا کے طلبگار ہیں صبح و شام حاجات و مشکلات میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں اور کسی کو اس کا شریک نہیں بناتے۔ آپ ان کا ساتھ نہ چھوڑیں۔ حاصل یہ کہ آپ اپنے دعوے پر قائم رہیں اور ان لوگوں کے ساتھ مجلس کریں جو محض اللہ کی بندگی کرتے اور صرف اسی کو پکارتے ہیں اور شرک نہیں کرتے۔ ” الذین یدعون ربھم “ میں حصر ہے یعنی وہ صرف اللہ ہی کو پکارتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی کو نہیں پکارتے۔ یہاں اگرچہ کوئی کلمہ حصر موجود نہیں لیکن مفہوم حصر کے لیے کلمات حصر کا وجود ضروری نہیں جیسا کہ علمائے نحو نے تصریح کی ہے بلکہ بعض دفعہ قرائن اور سیاق وسباق سے بھی حصر کا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے۔ چناچہ یہاں حصر پر قرینہ موجود ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کو پکارنے سے مشرکین بھی منکر نہیں تھے بلکہ وہ بھی اپنی حاجات میں اللہ تعالیٰ کو پکارتے تھے مگر وہ اللہ تعالیٰ کی پکار میں اوروں کو بھی شریک کرتے تھے اور صرف صرف ایک اللہ کو نہیں پکارتے تھے۔ اس لیے اس آیت میں آنحضرت ﷺ کو ان لوگوں کی رفاقت و معیت کا حکم دیا جا رہا ہے جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے تھے اور اس کی پکار میں کسی اور کو شریک نہیں کرتے تھے۔ 36:۔ یہ چوتھا امر متفرع ہے۔ ” ترید “ جملہ ” عینک “ کے سے حال ہے۔ والجملۃ علی القراء ۃ المتواترۃ حال من کاف (عینک) وجازت الحال منہ لانہ جزاء المضاف الخ (روح ج 15 ص 263) ۔ مطلب یہ ہے کہ دنیوی منافع کی خاطر توحید کو ماننے والوں سے آپ اپنی نگاہیں ہرگز نہ پھیریں ” ولا تطع من اغفلنا “ یہ پانچواں امر متفرع ہے۔ اور جن لوگوں کے دل اللہ کی توحید سے خالی اور اس کی یاد سے غافل ہیں اور جو اللہ کی عبادت کے بجائے دنیا کی دولت جمع کرنے میں مشغول ہیں آپ ان کی پیروی نہ کریں۔ ای شغل عن الدین وعبادۃ ربہ بالدنیا (ابن کثیر ج 3 ص 81) ۔ ان آیتوں میں آنحضرت ﷺ سے خطاب ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ امت کو تعلیم ہے۔
Top