Jawahir-ul-Quran - Al-Kahf : 2
قَیِّمًا لِّیُنْذِرَ بَاْسًا شَدِیْدًا مِّنْ لَّدُنْهُ وَ یُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا حَسَنًاۙ
قَيِّمًا : ٹھیک سیدھی لِّيُنْذِرَ : تاکہ ڈر سنائے بَاْسًا : عذاب شَدِيْدًا : سخت مِّنْ لَّدُنْهُ : اس کی طرف سے وَيُبَشِّرَ : اور خوشخبری دے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں الَّذِيْنَ : وہ جو يَعْمَلُوْنَ : عمل کرتے ہیں الصّٰلِحٰتِ : اچھے اَنَّ لَهُمْ : کہ ان کے لیے اَجْرًا حَسَنًا : اچھا اجر
ٹھیک اتاری تاکہ ڈر سناوے5 ایک سخت آفت کا اللہ کی طرف سے اور خوشخبری دے ایمان لانے والوں کو جو کرتے ہیں نیکیاں کہ ان کے لیے اچھا بدلہ ہے
5:۔ یہ منکرین کے لیے تخویف اخروی ہے۔ ” لینذر باسا شدیدا الخ “ میں لام ” انزل “ سے متعلق ہے۔ قرآن مجید نازل کرنے کے یہاں دو مقصد بیان کیے گئے ہیں۔ اول تخویف وانذار۔ دوم تبشیر۔ پہلے ” لینذر “ سے تخویف۔ پھر ” یبشر “ سے بشارت اس کے بعد پھر ” وینذر “ سے تخویف کا ذکر کیا گیا ہے۔ پہلے تخویف کے بیان میں مفعول (منکرین) کا ذکر نہیں کیا گیا اور عذاب شدید کا ذکر کیا گیا ہے بشارت کے سلسلے مفعول (المومنین) اور اجر دونوں مذکور ہیں۔ اس سورت میں چونکہ مقصود منکرین کے شبہات کا ازالہ ہے اس لیے بعد عہد کی وجہ سے ” و ینذر “ کا اعادہ کر کے منکرین کا ذکر کیا گیا۔ اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ وہ کون سے منکرین ہیں جن کا یہاں انذار مقصود ہے اور جن کے شبہات کا ازالہ کرنا ہے۔ چناچہ فرمایا ” الذین قالوا اتخذ اللہ ولدا “ ان لوگوں کا انذار مقصود ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ولد تجویز کرتے ہیں قرآن مجید میں مشرکین کے اس قول کو اتخاذِ ولد سے تعبیر کیا گیا ہے جس کے معنی بیٹا یعنی متبنی بنانے کے ہیں۔ عربی محاورات میں یہ ترکیب اسی مفہوم میں استعمال ہوتی ہے۔ جیسا کہ حضرت آسیہ زوجہ فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اور عزیز مصر نے یوسف (علیہ السلام) کے متعلق کہا تھا ” عسی ان ینفعنا او نتخذہ ولدا “ (قصص رکوع 1 اور یوسف رکوع 3) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین اللہ تعالیٰ کے لیے حقیقی بیٹا تجویز نہیں کرتے تھے۔ نفی اتخاذ الولد ظاھر فی التبنی (روح ج 15 ص 195) بلکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے بندوں، انبیاء علیہم السلام، اولیاء اور ملائکہ کرام کو اپنے متبنی اور نائب بنایا ہوا ہے اور ان کو بعض مافوق الاسباب امور میں تصرف واختیار دے دیا ہے، جیسا کہ باپ اپنے بیٹوں کو بعض اختیارات سونپ دیتا ہے اس طرح لفظ ولد یہاں حقیقی بیٹے کے معنوں میں نہیں بلکہ نائب متصرف کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی قدس سرہ فرماتے ہیں۔ ومنھم من اعتقد ان اللہ ھو السید وھو المدبر لکنہ قد یخلع علی بعض عبیدہ لباس الشرف والتالہ ویجعلہ متصرفا فی بعض الامور الخاصۃ و یقبل شفاعتہ فی عبادہ بمنزلۃ ملک الملوک یبعث علی کل قطر ملکا یقلد تدبیر المملکۃ فیما عدا الامور العظام ہی فیتلجلج لسانہ ان یسمیھم عباد اللہ فیسویہم وغیرہم فعدعن ذلک الی تسمیتہم ابناء اللہ ومحبو بے اللہ (حجۃ اللہ البالغہ ج 1 ص ص 48) اور کچھ مشرکین ایسے ہیں جن کا اعتقاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی سب سے بڑا ہے اور وہی مدبر عالم ہے لیکن وہ کبھی اپنے بعض مقرب بندوں کو بزرگی اور الوہیت کی خلعت سے سرفراز فرما کر ان کو بعض خاص امور میں متصرف بنا دیتا ہے اور دوسروں کے حق میں ان کی شفاعت قبول فرماتا ہے جیسا کہ دنیا کا ایک شہنشاہ ہر علاقے پر ایک چھوٹا بادشاہ مقرر کر کے اس کا انتظام اس کے سپرد کردیتا ہے باستثنائے امور عظیمہ۔ اب ان کی زبان ان مقربین کو اللہ کے بندے کہتے ہوئے لڑکھڑاتی ہے۔ کیونکہ اس طرح مقربین اور عوام میں کوئی فرق نہیں رہتا اس لیے وہ ان کو اللہ کے بندے کہنے کی بجائے اللہ کے بیٹے اور اللہ کے محبوب کہہ دیا کرتے ہیں۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین کا اللہ کے نیک بندوں کو ابناء اللہ (اللہ کے بیٹے) کہنے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ اللہ کے حقیقی بیٹے ہیں ان کا مطلب یہ تھا کہ وہ اللہ کے محبوب اور اسکے پیارے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو بعض امور میں تصرف کا اختیار دے رکھا ہے۔
Top