Jawahir-ul-Quran - Al-Kahf : 35
وَ دَخَلَ جَنَّتَهٗ وَ هُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ١ۚ قَالَ مَاۤ اَظُنُّ اَنْ تَبِیْدَ هٰذِهٖۤ اَبَدًاۙ
وَدَخَلَ : اور وہ داخل ہوا جَنَّتَهٗ : اپنا باغ وَهُوَ : اور وہ ظَالِمٌ : ظلم کر رہا تھا لِّنَفْسِهٖ : اپنی جان پر قَالَ : وہ بولا مَآ اَظُنُّ : میں گمان نہیں کرتا اَنْ : کہ تَبِيْدَ : برباد ہوگا هٰذِهٖٓ : یہ اَبَدًا : کبھی
اور گیا اپنے باغ میں اور وہ برا کر رہا تھا اپنی جان پر بولا نہیں آتا مجھ کو خیال کہ خراب ہو وے یہ باغ کبھی44
44:۔ جب وہ اپنے باغ میں داخل ہوا اور اس کی سرسبزی و شادابی اس کی خوبصورتی اور پھلوں کی کثرت کو دیکھا تو وہ حب دنیا اور حرص و آز کے خیالات میں کھو گیا اور بول اٹھا کہ جب تک میں زندہ ہوں اس وقت تک تو یہ باغ تباہ نہیں ہوگا۔ اور ہمیشہ اسی تازگی، شادابی اور رونق کے ساتھ برقرار رہے گا، اور میرا بھائی جس قیامت سے مجھے ڈراتا ہے اور جس آخرت کی آسائش و راحت کے لیے مجھے توحید اور اعمال حسنہ کی تلقین کرتا ہے، اول تو وہ قیامت آنے کی نہیں۔ ” و لئن رددت “ اور اگر بالفرض قیامت آ بھی گئی تو آخرت میں بھی میرا انجام اچھا ہوگا اور وہاں بھی مجھے مال و دولت اور عیش و عشرت کی زندگی نصیب ہوگی وہ اس شبہہ میں مبتلا تھا کہ اللہ کے یہاں اس کی بڑی قدر و منزلت ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اسے دنیا میں مال و دولت، جاہ و حشم اور شان و شوکت کی زندگی عطا فرمائی ہے اور وہ ان تمام انعامات کا مستحق ہے اس لیے آخرت میں اللہ کے نزدیک اس کی یہ قدر و منزلت اور اس کا استحقاق باقی رہے گا۔ اور اسے وہاں بھی ساری نعمتیں میسر ہوں گی (کبیر ج 5 ص 718) حضرت شیخ فرماتے ہیں وہ مشرک تھا جیسا کہ آخر میں خود اس نے اظہار ندامت کے طور پر کہا تھا کہ کاش میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناتا وہ بزرگوں کو حاجت روا، مشکل کشا اور مانع و معطی سمجھا تھا، اس کا اعتقاد تھا کہ جن بزرگوں کے طفیل دنیا میں اسے دولت و شوکت حاصل ہے ان کی سفارش آخرت میں بھی کام دے گی اور وہاں بھی اسے ہر قسم کا عیش حاصل ہوگا۔ لعل ذلک الکافر مع کونہ منکرا للبعث کان عابد صنم الخ (کبیر ج 5 ص 719) ۔
Top