Jawahir-ul-Quran - Al-Kahf : 39
وَ لَوْ لَاۤ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَآءَ اللّٰهُ١ۙ لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ١ۚ اِنْ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنْكَ مَالًا وَّ وَلَدًاۚ
وَلَوْلَآ : اور کیوں نہ اِذْ : جب دَخَلْتَ : تو داخل ہوا جَنَّتَكَ : اپنا باغ قُلْتَ : تونے کہا مَا شَآءَ اللّٰهُ : جو چاہے اللہ لَا قُوَّةَ : نہیں قوت اِلَّا : مگر بِاللّٰهِ : اللہ کی اِنْ تَرَنِ : اگر تو مجھے دیکھتا ہے اَنَا : مجھے اَقَلَّ : کم تر مِنْكَ : اپنے سے مَالًا : مال میں وَّوَلَدًا : اور اولاد میں
اور جب تو آیا تھا اپنے باغ میں کیوں نہ کہا تو نے جو چاہے اللہ سو ہو47 طاقت نہیں مگر جو دے اللہ اگر تو دیکھتا ہے مجھ کو کہ میں کم ہوں تجھ سے48 مال اور اولاد میں
47:۔ قطروس جب باغ میں داخل ہوا وہ دولت کے نشے میں ایسا مدہوش تھا کہ خدا کو بھی بھول گیا اور قیامت کا بھی انکار کر بیٹھا اور اپنی دولت پر لگا اترانے، اس پر اس کے بھائی نے اسے نصیحت کی کہ جب تو باغ میں داخل ہوا تھا تجھے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے تھا جس نے یہ سب نعمتیں تجھے عطا فرمائی ہیں۔ ” ما شاء اللہ “ اور جو کچھ اس باغ میں ہے سب اللہ کی مہربانی اور اس کی مشیت سے ہے اور یہ سب کچھ اسی کے قبضہ و تصرف میں ہے چاہے آباد رکھے چاہے برباد کردے۔ کل ما فیہا انما حصل بمشیۃ اللہ وان امرھا بیدہ ان شا 4 ترکہا عامرۃ وان شاء خر بھا (مدارک ج 3 ص 11) ۔ شاید قطروس نے مشیت میں اللہ کے ساتھ کسی اپنے معبود کو شریک کیا ہو جیسا کہ آج کل بھی جاہل لوگ کہتے ہیں ” جس طرح اللہ اور اس کے رسول نے چاہا “۔ حالانکہ یہ کلمہ شرک ہے۔حضور ﷺ کے سامنے ایک شخص کی زبان سے نکل گیا۔ کما شاء اللہ ورسولہ۔ اس پرحضور ﷺ نے اسے تنبیہ فرمائی اور فرمایا قولوا ماشاء اللہ وحدہ یوں کہا کرو۔ جس طرح صرف اللہ نے چاہا۔ لا قوۃ الا باللہ۔ نعمتیں عطا کرنے کے بعد چھین لینے کی طاقت و قوت صرف اللہ کے پاس ہے۔ جن بزرگوں کو تو نے اللہ کا شریک بنایا ہوا ہے ان کے پاس کچھ نہیں جس اللہ نے تجھے یہ باغات اور یہ سامان تعیش عطا فرمایا ہے وہ اس کے چھین لینے اور اسے آن واحد میں تباہ و برباد کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔ 48:۔ یہ سب یہوذا کا کلام ہے۔ ” حسباناً “ سے عذاب الہی مراد ہے۔ ” صعیدا زلقا “ چٹیل میدان جس میں کوئی روئیدگی نہ ہو۔ و حضا الانبات فیہ (مفردات ص 214) ۔ یعنی اگر تو کثرت مال اولاد پر فخر کر رہا ہے اور مجھے ان چیزوں کی کمی کی وجہ سے حقیر سمجھتا ہے تو سن لے کہ مال و اولاد چند روزہ دنیوی زندگی کی آنی فانی اور ناپائیدار زینت ہے، یہ فخر و مباہات کی چیز نہیں، اگر آج تو زر و جواہر میں کھیل رہا ہے اور اپنے باغوں پر اتراتا پھر رہا ہے اور میں مال اولاد میں تم سے کم ہوں تو جس خدائے بلندی و پستی نے تجھے دولت دی اور مجھے نہیں وہ ایسا بھی کرسکتا ہے کہ جو کچھ اس نے تجھے دیا ہے مجھے اس سے بھی زیادہ عطا فرما دے اور تیرے باغ کو طوفانِ برق وباد سے نیست نابود کردے یا زمین کا پانی خشک کردے اور تیرے باغات اور سرسبز و شاداب کھیت برباد ہوجائیں۔
Top