Jawahir-ul-Quran - Al-Kahf : 47
وَ یَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَ تَرَى الْاَرْضَ بَارِزَةً١ۙ وَّ حَشَرْنٰهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًاۚ
وَيَوْمَ : اور جس دن نُسَيِّرُ : ہم چلائیں گے الْجِبَالَ : پہار وَتَرَى : اور تو دیکھے گا الْاَرْضَ : زمین بَارِزَةً : کھلی ہوئی (صاف میدن) وَّحَشَرْنٰهُمْ : اور ہم انہیں جمع کرلیں گے فَلَمْ نُغَادِرْ : پھر نہ چھوڑیں گے ہم مِنْهُمْ : ان سے اَحَدًا : کس کو
اور جس دن ہم چلائیں پہاڑ52 اور تو دیکھے زمین کو کھلی ہوئی اور گھیر بلائیں ہم ان کو پھر نہ چھوڑیں ان میں سے ایک کو
52:۔ یہ اصلاح منکرین کا تیسرا طریقہ ہے۔ یعنی دنیا کی خاطر دین کو چھوڑتے ہیں وہی دنیا ان کے لیے وبال جان ثابت ہوگی اور آخرت میں اس کی وجہ سے دردناک عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ” نسیر الجبال الخ “ پہاڑوں کو چلانے سے مراد یہ ہے کہ قیامت کے دن پہاڑوں کو ان کی جگہوں سے اٹھا لیا جائے گا اور وہ بادلوں کی طرح فضائے آسمانی میں اڑا دئیے جائیں گے۔ جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے۔ ” وتری الجبال تحسبھا جامدۃ وھی تمر مر السحاب “۔” بارزۃ “ ظاہر اور نظر آنے والی زمین کا جو حصہ پہاڑوں سے چھپا ہوا تھا وہ اب عریاں ہو کر صاف نظر آنے لگے گا۔ ” لا یغادر الخ “ مجرمین جب اپنا نامہ اعمال دیکیں گے تو سخت متحیر ہوں گے اور کہیں گے کہ یہ کیسی کتاب ہے ؟ اس نے تو نہ کوئی چھوٹی بات چھوری نہ بڑی اس میں تو ہماری ہر بدی لکھی ہوئی ہے۔ لا یغادر ای لایترک۔
Top