Jawahir-ul-Quran - Al-Kahf : 58
وَ رَبُّكَ الْغَفُوْرُ ذُو الرَّحْمَةِ١ؕ لَوْ یُؤَاخِذُهُمْ بِمَا كَسَبُوْا لَعَجَّلَ لَهُمُ الْعَذَابَ١ؕ بَلْ لَّهُمْ مَّوْعِدٌ لَّنْ یَّجِدُوْا مِنْ دُوْنِهٖ مَوْئِلًا
وَرَبُّكَ : اور تمہارا رب الْغَفُوْرُ : بخشنے والا ذُو الرَّحْمَةِ : رحمت والا لَوْ : اگر يُؤَاخِذُهُمْ : ان کا مواخذہ کرے بِمَا كَسَبُوْا : اس پر جو انہوں نے کیا لَعَجَّلَ : تو وہ جلد بھیجدے لَهُمُ : ان کے لیے الْعَذَابَ : عذاب بَلْ : بلکہ لَّهُمْ : ان کے لیے مَّوْعِدٌ : ایک وقت مقرر لَّنْ يَّجِدُوْا : وہ ہرگز نہ پائیں گے مِنْ دُوْنِهٖ : اس سے ورے مَوْئِلًا : پناہ کی جگہ
اور تیرا رب بڑا بخشنے والا ہے62 رحمت والا اگر ان کو پکڑے ان کے کئے پر تو جلد ڈالے ان پر عذاب پر ان کے لیے ایک وعدہ ہے63 کہیں نہ پائیں گے اس سے ورے سرک جانے کو جگہ
62:۔ یہ بھی زجر ہے۔ ” وربک الغفور ذو الرحمۃ الخ “ یعنی اللہ تعالیٰ غفور، اور ذو الرحمۃ بھی ہے، لیکن اگر لوگوں کی بد اعمالیوں پر ان کو پکڑ لے تو اس کے عذاب سے بھی ان کو کوئی نہیں چھڑا سکتا۔ 63:۔ یہ دنیا کا عذاب تو معمولی عذاب ہے آخرت کا عذاب بڑا سخت اور اس سے بچنے کی بھی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ ” موئلا “ جائے پناہ اور جائے فرار، ” و تلک القری الخ “ کا اشارہ محسوس مبصر کی طرف نہیں بلکہ معہود فی الذہن کی طرف ہے اور ” القری “ سے پہلے مضاف مقدر ہے ای اھل القری۔ اور اس سے مراد عاد وثمود اور قوم لوط ہے۔ ان اقوال کی تباہی کی داستانیں عرب میں معروف ومعلوم تھیں اس لیے انہیں بمنزلہ محسوس قرار دے کر ” تلک “ سے ان کی طرف اشارہ فرمایا۔ والاشارۃ لتنزیلھم لعلمھم بہم منزلۃ المحسوس (روح ج 15 ص 306) ۔ اہل بدعت ما تقول فی ھذا الرجل الخ سے آنحضرت ﷺ کے قبر میں حاضر و ناظر ہونے پر استدلال کرتے ہیں۔ مذکورہ آیت سے ان کا استدلال باطل ہوجاتا ہے کہ کیونکہ مشار الیہ کے لیے محسوس مبصر ہونا ضروری نہیں۔ جس طرح ” تلک القری “ میں تلک سے معہود فی الذہن بستیوں کی طرف اشارہ ہے اسی طرح ھذا الرجل میں بھی معہود فی الذہن کی طرف ہی اشارہ ہے۔ ” موعدا “ یعنی وقت معین، مطلب یہ کہ ان قوموں نے جب ظلم کیا، شرک و کفر اور بد عملی سے باز نہ آئے تو ہم نے ایک معین وقت میں جو ان کی ہلاکت کے لیے مقدر تھا ان کو ہلاک کردیا اور ہمارا عذاب مقررہ وقت سے ایک پل بھی مقدم یا مؤخر نہیں ہوا۔
Top