Jawahir-ul-Quran - Al-Kahf : 60
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتٰىهُ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤى اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِفَتٰىهُ : اپنے جوان (شاگرد) سے لَآ اَبْرَحُ : میں نہ ہٹوں گا حَتّٰى : یہانتک اَبْلُغَ : میں پہنچ جاؤ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ : دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ اَوْ : یا اَمْضِيَ : چلتا رہوں گا حُقُبًا : مدت دراز
اور جب کہا موسیٰ نے اپنے جوان کو64 میں نہ ہٹوں گا جب تک نہ پہنچ جاؤں جہاں ملتے ہیں دو دریا یا چلا جاؤں قرنوں
64:۔ جواب شبہہ ثالثہ :۔ یہ تیسرے شب ہے کا جواب ہے۔ شبہہ یہ تھا کہ حضرت موسیٰ وخضر (علیہما السلام) کے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اگرچہ غیب داں نہ تھے لیکن حضرت خضر (علیہ السلام) تو غیب داں تھے کیونکہ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو امور غیبیہ بتائے تھے۔ اس شبہہ کا جواب واقعہ کے آخر میں دیا ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) نے خود اعتراف کیا تھا کہ ان امور کا ان کو کوئی علم نہیں تھا۔ انہیں ان باتوں کا علم اللہ تعالیٰ کے بتانے سے حاصل ہوا اور انہوں نے جو کچھ بھی کیا اللہ کے حکم سے کیا تھا ” وما فعلتہ عن امری “۔” لفتاہ “ فتی (نوجوان) سے یوشع بن نون مراد ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا خادم تھا اور ان سے علم حاصل کرتا تھا، اس سفر میں وہ ان کے ہمراہ تھا۔ مجمع البحرین، دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ، دو دریاؤں سے بحیرہ روم اور بحیرہ فارس مراد ہیں جیسا کہ حضرت مجاہد اور قتادہ سے منقول ہے۔ و مجمع البحران قال مجاھد وقتادۃ ھو مجتمع بحر فارس و بحر الروم (بحر ج 6 ص 144، قرطبی ج 11 ص 9، روح ج 15 ص 212) ۔ ” حقباً “ اسم مفرد ہے اس کی جمع احقب اور احقاب ہے۔ حضرت ابن عباس اور کئی مفسرین سے منقول ہے کہ حقب کے معنی مطلق زمانے کے ہیں۔ یعنی زمان مبہم اور غیر محدود مراد زمان طویل یعنی مدتہا والمعنی حتی یقع اما بلوغی المجمع او مضی حقبا ای سیری زمانا طویلا۔ یعنی یا تو میں مجمع البحرین میں پہنچ جاؤں گا یا مدتوں چلتا رہوں گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس سفر کا باعث یہ ہوا کہ جیسا کہ مفسرین نے حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ ایک دن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ کون سا بندہ تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے ؟ فرمایا جو مجھے ہر وقت یاد رکھتا ہو اور کبھی نہیں بھولتا۔ پھر عرض کیا تیرے بندوں میں سب سے اچھا قاضی کون ہے ؟ فرمایا جو صحیح فیصلہ کرے اور خواہش نفس کی پیروی نہ کرے۔ پھر عرض کیا تیرے بندوں میں سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ ارشاد فرمایا جو لوگوں سے ان کا علم حاصل کر کے اپنے علم میں اضافہ کرتا رہے، اس خیال سے کہ اسے کوئی ایسی بات مل جائے جس سے وہ راہنمائی حاصل کرے یا وہ اپنے کو ہلاکت سے بچا لے۔ اس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ اے اللہ، اگر تیرے بندوں میں کوئی بندہ مجھ سے بڑا عالم ہے تو مجھے اس کا پتہ بتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تجھ سے زیادہ عالم ہمارا بندہ خضر ہے جو مجمع البحرین میں رہتا ہے، تم ایک مچھلی تل کر توشہ دان میں رکھ لو اور مجمع البحرین کی طرف روانہ ہوجاؤ جہاں مچھلی گم ہوجائے سمجھ لو کہ ہمارا بندہ وہیں رہتا ہے (کبیر ج 5 ص 735، روح ج 15 ص 313) ۔
Top