Jawahir-ul-Quran - Al-Kahf : 62
فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتٰىهُ اٰتِنَا غَدَآءَنَا١٘ لَقَدْ لَقِیْنَا مِنْ سَفَرِنَا هٰذَا نَصَبًا
فَلَمَّا : پھر جب جَاوَزَا : وہ آگے چلے قَالَ : اس نے کہا لِفَتٰىهُ : اپنے شاگرد کو اٰتِنَا : ہمارے پاس لاؤ غَدَآءَنَا : ہمارا صبح کا کھانا لَقَدْ لَقِيْنَا : البتہ ہم نے پائی مِنْ : سے سَفَرِنَا : اپنا سفر هٰذَا : اس نَصَبًا : تکلیف
پھر جب آگے چلے66 کہا موسیٰ نے اپنے جوان کو لا ہمارے پاس ہمارا کھانا ہم نے پائی اپنے اس سفر میں تکلیف
66:۔ جب دونوں مجمع البحرین سے آگے نکل گئے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ساتھی سے کہا کہ اس سفر سے بہت تھک گئے ہیں اب کھانا لاؤ۔ ” نصبا “ تعبا یعنی تھکاوٹ اور تکلیف۔ ” قال ارءیت الخ “ ساتھی کو اب مچھلی کا واقعہ یاد آیا اور اس نے جواب میں کہا جب ہم نے پتھر کے سایہ میں آرام کیا تھا، اس وقت وہ مچھلی عجیب معجزانہ طور پر زندہ ہو کر توشہ دان سے نکل کر دریا میں گھس گئی تھی مگر آپ سے اس کا حال بیان کرنا بھول گیا۔ ” قال ذالک الخ “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ہماری منزل مقصود کی یہی تو علامت تھی چناچہ وہیں سے الٹے پاؤں واپس ہوئے۔ ” قصصا “ یہ مصدر ہے اور فعل محذوف کا مفعول مطلق ہے۔ ای یقصان قصصا۔ یا مصدر بمعنی اسم فاعل ارتدا کے فاعل سے حال ہے، یعنی اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے ہوئے واپس مڑے جہاں سے مچھلی دریا میں داخل ہوئی جب وہاں پہنچے تو قریب ہی جزیر میں خضر (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) غیب دان تھے اگر غیب داں ہوتے تو انہیں حضرت خضر کی جگہ معلوم ہوتی اور وہ اس جگہ سے آگے نہ نکل جاتے۔
Top