Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 163
وَ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ۠   ۧ
وَاِلٰهُكُمْ : اور معبود تمہارا اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : ایک (یکتا) لَآ : نہیں اِلٰهَ : عبادت کے لائق اِلَّا ھُوَ : سوائے اس کے الرَّحْمٰنُ : نہایت مہربان الرَّحِيْمُ : رحم کرنے والا
اور معبود تم سب کا ایک ہی معبود ہے297 کوئی معبود نہیں اس کے سوا298 بڑا مہربان ہے نہایت رحم والا
297 یہاں دعویٰ توحید کا اعادہ کیا گیا ہے۔ اس سے یہ اشارہ بھی ہوگیا کہ سب سے پہلے جس چیز کا اظہار واجب ہے اور جس کا چھپانا کسی حال میں بھی جائز نہیں وہ توحید ہے۔ لما حذر تعالیٰ من کتمان الحق بین ان اول مایجب اظھارہ ولا یجوز کتمانہ امر التوحید (قرطبی ص 190 ج 2) اور اعادہ دعویٰ کی وجہ پہلے بیان ہوچکی ہے کہ شروع میں تو شرک فی الدعاء کی نفی تھی۔ اب یہاں سے شرک فعلی کی نفی مقصود ہے یعنی جس طرح اللہ کے سوا کوئی پکارنے کے لائق نہیں اسی طرح اللہ کے سوا نذرومنت کا مستحق بھی کوئی نہیں اور نہ ہی کسی کی تعظیم کے لیے سانڈ وغیرہ چھوڑنے جائز ہیں جیسا کہ آگے اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ الخ میں غیر اللہ کی نذرونیاز اور كُلُوْا مِمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا الخ میں تحریمات لغیر اللہ کا بیان آرہا ہے۔ اِلٰہٌ سے مراد وہ زات ہے جو عالم الغیب، قادر علی الاطلاق، مالک ومختار، حاجت روا ومشکل کشا ہونے کی وجہ سے تمام عبادات مالیہ، بدنیہ، اور لسانیہ کی مستحق ہو، جسے حاجات میں پکارا جائے، مصائب وبلیات میں جس کی پناہ ڈھونڈی جائے، جس کی رضامندی اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس کی نذریں اور منتیں دی جائیں۔ اور رنج وبلا اور قحط ووباء میں جس کی دہائی دی جائے اس سے مدد طلب کی جائے۔ اور واحد سے مراد یہ ہے کہ وہ بےمثل او بیگانہ ہے۔ ذات وصفات میں بےنظیر ہے۔ اور استحقاق عبادت میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ و اکثر الناس علی ان الواحد ھنا بمعنی لا نظیر لہ ولا شبیہ فی ذاتہ ولا فی صفاتہ ولا فی افعالہ۔۔۔ واصح الاقوال عند ذی العقول السلیمۃ انہ الذی لا نظیر لہ ولا شبیہ لہ فی استحقاق العبادۃ (روح ص 30 ج 2) فرد فی الوھیتہ لاشریک لہ فیھا ولا یصح ان یسمی غیرہ الھاً (مدارک ص 67 ج 1) لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۔ لا نفی جنس کے لیے ہے اور اس کی خبر محذوف ہے اور الا بمعنی غَیْرُ ہے ای لا الہ موجود غیرہ یعنی نفس الامر اور عالم وجود میں اللہ کے سوا کسی الٰہ کا نام ونشان تک موجود نہیں۔ پہلے جملہ سے اس بات کی نفی کی ہے کہ دنیا میں مستحق عبادت صرف اللہ ہی ہے اور اس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں۔ تو شبہ ہوسکتا تھا کہ شاید دنیا میں اللہ کے سوا کوئی اور بھی الہ ہو، لیکن مستحق عبادت نہ ہو، تو اس جملہ میں سرے سے وجود الہ ہی کی نفی فرمادی۔ ومزیح علی ما قیل لام عسی ان یتوھم ان فی الوجود الھا لکن لا یستحق العبادۃ (روح ص 30 ج 2)298 یہ دونوں صفتیں دعویٰ توحید پر بطور دلیل لائی گئی ہیں۔ کیونکہ رحمن تو وہ ہے جس نے ہمیں دنیوی انعامات سے مالا مال فرمایا ہے۔ اور رحیم وہ ہے جو آخرت میں ہم پر اپنی رحمت خاصہ کے دروازے کھولے گا۔ جب دنیا وآخرت میں وہی ہمارا ولی نعمت اور محسن ومربی ہے اور باقی ساری کائنات ارضی وسماوی اور مخلوقات نوری وناری اور خاکی سب اس کی محتاج ودست نگر ہے تو وہی رحمن ورحیم ہی ہر قسم کی عبادت کا مستحق ہے۔ اس کے سوا کوئی علوی یا سفلی، ارضی یا سماوی، نوری، ناری یا خاکی عبادت کا مستحق نہیں۔ نہ پکارنے کے لائق نہ نذرومنت کے۔ یہاں تک تو دعویٰ توحید کا اعادہ تھا۔ آگے اس کے اثبات کے لیے عقلی دلیل بیان کی گئی ہے جو مختلف سات دلیلوں پر مشتمل ہے۔
Top