Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 225
لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِیْۤ اَیْمَانِكُمْ وَ لٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوْبُكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ
لَا يُؤَاخِذُكُمُ : نہیں پکڑتا تمہیں اللّٰهُ : اللہ بِاللَّغْوِ : لغو (بیہودہ) فِيْٓ : میں اَيْمَانِكُمْ : قسمیں تمہاری وَلٰكِنْ : اور لیکن يُّؤَاخِذُكُمْ : پکڑتا ہے تمہیں بِمَا : پر۔ جو كَسَبَتْ : کمایا قُلُوْبُكُمْ : دل تمہارے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا حَلِيْمٌ : بردبار
نہیں پکڑتا تم کو اللہ بیہودہ قسموں پر445 تمہاری لیکن پکڑتا ہے تم کو ان قسموں پر کہ جن کا قصد کیا تمہارے دلوں نے اور اللہ بخشنے والا تحمل کرنے ولا ہے
445 یہ یمین لغو کا حکم ہے۔ کہ اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ نہ دنیا میں کفارہ ہے نہ آخرت میں سزا۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک یمین لغو کی صورت یہ ہے کہ کسی نہ کسی گذشتہ واقعہ کو صحیح سمجھتے ہوئے اس کے متعلق قسم کھائی کہ ایسا ہوا ہے حالانکہ واقعہ میں ایسا نہیں تھا۔ فعندنا ھو ان یحلف جیسے اس نے کسی کو بتاتے وقت اس پر قسم کھالی کہ خالد لاہور چلا گیا ہے حالانکہ یہ خبر غلط تھی مگر زید نے اس خبر کو صحیح سمجھ کر قسم کھائی تو یہ یمین لغو ہوگی اور اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ حضرت ابن عباس، حسن، مجاہد، نخعی، زہری، قتادہ، سلیمان بن یسار وغیرہ کا یہی مسلک ہے۔ وقول ابی حنیفۃ ھو قول ابن عباس والحسن والمجاھد والنخعی والزھری وسلیمان بن یسار وقتادۃ والسدی ومکحول (کبیر ص 357 ج 2) وَلٰكِنْ يُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوْبُكُمْ ۔ یہ یمین غموس کا حکم ہے۔ اور یمین غموس یہ ہے کہ عمداً اور قصداً کسی گذشتہ واقعہ کے متعلق جھوٹی قسم کھائی جائے۔ یعنی یمین لغوپر تو کوئی مواخذہ نہیں البتہ دل کے ارادہ اور قصد سے تم جو جھوٹی قسمیں کھاؤگے، ان پر مواخذہ ہوگا۔ اور یہ مواخذہ اخروی عذاب کی صورت میں ہوگا۔ دنیا میں اس کا کوئی کفارہ نہیں۔ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ۔ وہ بخشنے والا ہے چناچہ غیر ارادی اور لغو قسموں پر مواخذہ نہیں کرتا۔ اور بردبار ہے۔ ارادۃً جھوٹی قسموں پر فوراً مواخذہ نہیں کرتا بلکہ بندوں کو توبہ کرنے اور گناہوں پر نادم ہونے کا موقع دیتا ہے۔
Top