Jawahir-ul-Quran - An-Noor : 11
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ١ؕ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ١ؕ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ١ۚ وَ الَّذِیْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ جَآءُوْ بالْاِفْكِ : بڑا بہتان لائے عُصْبَةٌ : ایک جماعت مِّنْكُمْ : تم میں سے لَا تَحْسَبُوْهُ : تم اسے گمان نہ کرو شَرًّا : برا لَّكُمْ : اپنے لیے بَلْ هُوَ : بلکہ وہ خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر ہے تمہارے لیے لِكُلِّ امْرِۍ : ہر ایک ٓدمی کے لیے مِّنْهُمْ : ان میں سے مَّا اكْتَسَبَ : جو اس نے کمایا (کیا) مِنَ الْاِثْمِ : گناہ سے وَالَّذِيْ : اور وہ جس تَوَلّٰى : اٹھایا كِبْرَهٗ : بڑا اس کا مِنْهُمْ : ان میں سے لَهٗ : اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
جو لوگ لائے ہیں10 یہ طوفان تمہیں میں ایک جماعت ہیں تم اس کو نہ سمجھو11 برا اپنے حق میں بلکہ یہ بہتر ہے تمہارے حق میں ہر آدمی کے لیے ان میں سے وہ ہے جتنا اس نے گناہ کمایا اور جس نے12 اٹھایا ہے اس کا بڑا بوجھ اس کے واسطے بڑا عذاب ہے
10:۔ ” ان الذین جاء وا الخ “ یہ منافقین پر زجر ہے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ پر تہمت کے بارے میں لوگ تین قسموں میں منقسم ہوگئے۔ اول وہ منافقین جنہوں نے یہ تہمت گھڑی اور اس کی تشہیر کی۔ ان کا سرغنہ عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین تھا۔ دوم وہ مخلص مومنین جو غلط فہمی سے منافقوں کی باتوں سے متاثر ہوگئے اور ان کی زبانوں سے بھی نامناسب باتیں نکل گئیں۔ حضرت حسان بن ثابت اور مسطح بن اثاثہ ایسے ہی تھے۔ سوم عام مخلص مومنین جنہوں نے یہ باتیں سن کر خاموشی اختیار کی نہ ان کی تائید کی نہ تردید۔ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں جماعتوں پر زجر فرمایا۔ پہلے گروہ پر سب سے زیادہ زجر کیا گیا۔ یہ پہلی دونوں جماعتوں پر زجر ہے منکم میں خطاب تمام مسلمانوں سے ہے۔ ” عصبۃ “ سے وہ منافقین اور مومنین مراد ہیں جنہوں نے اس تہمت میں حصہ لیا۔ منافقین اپنے کو مسلمانوں میں شمار کرتے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں بظاہر مسلمانوں میں شمار کر کے ” منکم “ کا لفظ استعمال فرمایا۔ ومعنی ” منکم “ من اھل ملتکم و ممن ینتھی الی الاسلام سواء کان کذالک فی نفس الامر ام لا فیشمل ابن ابی لانہ ممن ینتھی الی الاسلام ظاھرا وان کان کافرا فی نفس الامر (روح ج 18 ص 115) ۔ 11:۔ ” لا تحسبوہ الخ “ اس افک اور تہمت کو تم برا نہ سمجھو بلکہ وہ تمہارے لیے خیر و برکت کا پیش خیمہ ہے کیونکہ حضرت عائشہ ؓ کو اللہ تعالیٰ نے تہمت سے پاک ثابت کردیا اور اس کے ساتھ گذشتہ چار احکام بھی نازل فرما دئیے جو معاشرے کے لیے امن و سلاماتی اور طہارت و پاکیزگی کا پیغام لے کر آئے ہیں۔ بل ھو خیر لکم لاکتسابکم بہ الثواب العظیم فظہور کر امتکم علی اللہ عز وجل بانزال ثمانی عشرۃ ایۃ فی نزاھۃ ساحتکم الخ (ابو السعود ج 6 ص 336) ۔ ” لکل امرئ منھم الخ “ اور جنہوں نے اس تہمت میں حصہ لیا ہے انہوں نے اپنے جرم کی نوعیت کے مطابق گناہ کا بوجھ اٹھا لیا ہے۔ ٖ 12:۔ ” والذی تولی الخ “ اس سے عبداللہ بن ابی رائیس المنافقین مراد ہے اس واقعہ میں شر و فساد کا سرغنہ اور لیڈر یہی تھا اس لیے جنہوں نے اس میں حصہ لیا ہے وہ محض غلط فہمی کا شکار ہوئے۔ والاقرب فی الروایۃ ان المراد بہ عبداللہ بن ابی ابن سلول فانہ کان منافقا یطلب ما یکون قدحا فی الرسول (علیہ السلام) وغیرہ کان تابعا لہ فیما کان یاتی الخ (کبیر ج 6 ص 351) (والذی تولی کبرہ) ھو عبداللہ بن ابی ابن سلول (معالم و خازن ج 5 ص 62) ۔ جمہور اور محقق مفسرین نے یہی لکھا ہے کہ یہاں موصول سے عبداللہ بن ابی ابن سلول ہی مراد ہے مزید حوالوں کے لیے ملاحظہ ہوں :۔ مدارک ج 3 ص 103، جامع البیان ص 306، ابو السعود ج 6 ص 336، روح ج 18 ص 115، بحر ج 6 ص 437 وغیرہ۔
Top