Jawahir-ul-Quran - An-Noor : 36
فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ١ۙ یُسَبِّحُ لَهٗ فِیْهَا بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِۙ
فِيْ بُيُوْتٍ : ان گھروں میں اَذِنَ : حکم دیا اللّٰهُ : اللہ اَنْ تُرْفَعَ : کہ بلند کیا جائے وَيُذْكَرَ : اور لیا جائے فِيْهَا : ان میں اسْمُهٗ : اس کا نام يُسَبِّحُ : تسبیح کرتے ہیں لَهٗ : اس کی فِيْهَا : ان میں بِالْغُدُوِّ : صبح وَالْاٰصَالِ : اور شام
ان گھروں میں کہ اللہ نے حکم دیا ان کو43 بلند کرنے کا اور وہاں اس کا نام پڑھنے کا یاد کرتے ہیں اس کی وہاں صبح اور شام
43:۔ ” فی بیوت الخ “: دعوی توحید پر ان لوگوں سے دلیل نقلی ہے جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کو مدبر عالم، متصرف و مکتار اور کارساز سمجھ کر پکارتے ہیں اور ہر قسم کے شرک سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ و تقدیس کرتے ہیں۔ ” فی بیوت “ ظرف ” یسبح “ کے متعلق ہے۔ ” بیوت “ موصوف ” اذن اللہ الخ “ جملہ صفت، ” رجال “ ” یسبح “ کا فاعل ہے۔ ” فیھا “ ، ” فی بیوت “ کا تکرار ہے برائے تاکید، ای یسبح لہ رجال فی بیوت و فیھا تکریر کقولک زید فی الدار جالس فیھا (بحر ج 6 ص 458) ۔ یا ” فی بیوت “ جز مقدم ہے۔ ” رجال “ نکرہ موصوفہ مبتداء موخر ہے۔ ” رجال “ سے انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے متبعین مراد ہیں۔ ” اذن “ سے امر اور ” رفع “ سے تعظیم مراد ہے اور اللہ کے اسم کے ذکر سے اس کی توحید مراد ہے۔ والمراد بالاذن الامر و بالرفع التعظیم (روح ج 18 ص 174) ۔ وعن ابن عباس ؓ تعالیی عنھما المراد بہ (بذکر اسمہ) توحیدہ عز وجل وھو قول لا الہ الا اللہ (روح ج 18 ص 186) ۔ یعنی جن گھروں کی عزت کرنے اور جن میں توحید کا ذکر اذکار کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ان میں اللہ کے ایسے بندے اس کا ذکر کرتے اور صبح و شام اس کی تسبیح و تقدیس کا ورد کرتے رہتے ہیں جن کو دنیا کا کاروبار اللہ کے زکر سے اور نماز قائم کرنے اور زکوۃ دینے سے مانع نہیں ہوتا یعنی وہ دنیا کے کاروبار میں ایسے منہمک نہیں ہوتے کہ اللہ کی عبادات ہی سے غافل ہوجائیں بلکہ کاروباری مصروفیت کے باوجود اللہ کی یاد اور اس کے فرائض کی ادائیگی میں سستی نہیں کرتے۔ ” یخافون یوما الخ “ یہ بھی انہی لوگوں کی صفت ہے۔ وہ لوگ اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن خوف کے مارے دل بےچین اور مضطرب ہوجائینگے مراد قیامت کا دن ہے۔ ” لیجزیھم “ یہ مذکورہ افعال سے متعلق ہے یعنی اللہ کی تسبیح و تقدیس اس کی توحید کا ذکر، اقامت صلوۃ، ایتاء زکوۃ اور خوف اس لیے بجا لاتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ ان کو اچھی جزاء دے اور مزید فضل و مہربانی سے نوازے (روح) ۔ ” واللہ یرزاق الخ “ : یہ ماقبل کی علت ہے یعنی اللہ تعالیٰ جسے چاہے محض اپنے فضل و کرم سے اصل استحقاق سے زیادہ جزا دیدے۔ اس دلیل نقلی میں بتایا گیا کہ اللہ کے نیک بندے یعنی انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے متبعین ہر وقت اس کو یاد کرتے رہتے ہیں وہ اس کی یاد اور اس کی توحید سے کبھی غافل نہیں ہوتے وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کو متصرف و مختار و کارساز سمجھ کر پکارتے ہیں وہ قیامت کے دن سے بھی ڈرتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ اللہ ہی معبود برحق، مختار مطلق اور مالک روز جزا ہے۔
Top