Jawahir-ul-Quran - An-Noor : 39
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۭ بِقِیْعَةٍ یَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَآءً١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَهٗ لَمْ یَجِدْهُ شَیْئًا وَّ وَجَدَ اللّٰهَ عِنْدَهٗ فَوَفّٰىهُ حِسَابَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ سَرِیْعُ الْحِسَابِۙ
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : اور جن لوگوں نے کفر کیا اَعْمَالُهُمْ : ان کے عمل كَسَرَابٍ : سراب کی طرح بِقِيْعَةٍ : چٹیل میدان میں يَّحْسَبُهُ : گمان کرتا ہے الظَّمْاٰنُ : پیاسا مَآءً : پانی حَتّيٰٓ : یہانتک کہ اِذَا جَآءَهٗ : جب وہ وہاں آتا ہے لَمْ يَجِدْهُ : اس کو نہیں پاتا شَيْئًا : کچھ بھی وَّ وَجَدَ : اور اس نے پایا اللّٰهَ : اللہ عِنْدَهٗ : اپنے پاس فَوَفّٰىهُ : تو اس (اللہ) نے اسے پورا کردیا حِسَابَهٗ : اس کا حساب وَاللّٰهُ : اور اللہ سَرِيْعُ الْحِسَابِ : جلد حساب کرنے والا
اور جو لوگ منکر ہیں ان کے کام44 جیسے ریت جنگل میں پیاسا جانے اس کو پانی یہاں تک کہ جب پہنچا45 اس پر اس کو کچھ نہ پایا اور اللہ کو پایا اپنے پاس پھر اس کو پورا پہنچا دیا اس کا لکھا، اور اللہ جلد لینے والا ہے حساب
44:۔ ” والذین کفروا الخ “ یہ دلیل نقلی مذکور پر ایک شب ہے کا جواب ہے دلیل مذکور پر شبہہ وارد ہوتا تھا کہ دونوں کی عبادت اور پکار میں زمین و آسمان کا فرق ہے مسلمان صرف اور صرف اللہ کی عبادت کرتے اور صرف اسی کو پکارتے ہیں اور اس کی عبادت و دعا میں کسی کو شریک نہیں کرتے۔ اس کے برعکس مشرکین اللہ کی عبادت کے ساتھ اوروں کی بھی عبادت کرتے ہیں اور اللہ کے سوا اپنے کود ساختہ معبودوں کو بھی کارساز سمجھ کر پکارتے ہیں اس لیے ان کے تمام اعمال بےسود اور رائیگاں ہیں۔ مشرکین کے اعمال دو قسم کے ہیں۔ اول وہ جو بظاہر اچھے ہیں مگر حقیقت میں بےفائدہ ہیں جیسا کہ مشرکین خیرات کرتے، سرائیں اور مسافر خانے بنواتے ہیں۔ دوم وہ جو بظاہر بھی برے ہوں اور حقیقت میں بھی ضرر رساں ہوں جیسا کہ اللہ کے سوا اوروں کو کارساز اور حاجت روا سمجنا وغیر۔ ” اعمالھم کسراب الخ “ میں پہلی قسم کے اعمال کی مثال بیان کی گئی ہے۔ ” سراب “ وہ ریت جو دھوپ میں چمکتی ہوئی نطر آتی ہے۔ ” قیعۃ “ صاف میدان۔ ایک مسافر جو لق و دق صحرا میں سفر کر رہا ہو۔ سورج کی گرمی تیز ہو اور وہ پیاس سے بدحال ہوچکا ہو، دور سے اسے سراب نظر آئے جو سورج کی شعاعوں کی وجہ سے پانی معلوم ہو لیکن جب وہاں پہنچے تو سوا ریت کے کچھ بھی نہ ہو۔ مشرکین اپنے ان اعمال خیر سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں لیکن خدا کے یہاں جب حاضر ہوں گے تو اعمال کا نام و نشان تک نہ دیکھیں گے۔ اذا رای السراب من ھو محتاج الی الماء یحسبہ ماء قصد یشرب منہ فلما انتھی الیہ (لم یجدہ شیئا) فکذالک الکافر یحسب ان عمل عملا وانہ قد حصل شیئا فاذا وافی اللہ یوم القیمۃ وحاسبہ علیھا ونوقش علی افعالہ لم یجد شیئا بالکلیۃ (ابن کثیر ج 3 ص 296) ۔ 45:۔ ” حتی اذا الخ “۔ حتی غایت کے لیے ہوتا ہے مگر اس کا ربط ماقبل سے ظاہر نہیں ہوتا کیونکہ پہلے سراب کی مثال بیان کی گئی ہے اور اس کے بعد شبہات کا ذکر ہے اس لیے یہاں یہ محذوف ہوگا کہ کافر اب تو نہیں مانتے لیکن جب وہ اللہ کے پاس جائینگے اور وہاں اپنے معبودان باطلہ کو نہیں پائیں گے، انہیں امید تھی ثواب کی مگر اللہ تعالیٰ انہیں سخت عذاب میں مبتلا کرے گا۔
Top