Jawahir-ul-Quran - Yaseen : 30
یٰحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ١ۣۚ مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ
يٰحَسْرَةً : ہائے حسرت عَلَي الْعِبَادِ ڱ : بندوں پر مَا يَاْتِيْهِمْ : نہیں آیا ان کے پاس مِّنْ رَّسُوْلٍ : کوئی رسول اِلَّا : مگر كَانُوْا : وہ تھے بِهٖ : اس سے يَسْتَهْزِءُوْنَ : ہنسی اڑاتے
کیا افسوس ہے بندوں پر21 کوئی نہیں آیا ان کے پاس رسول جس سے ٹھٹھا نہیں کرتے
21:۔ یحسرۃ الخ، قصہ کے اختتام پر حسب عادت مستمرہ ارشاد فرمایا، انبیاء (علیہم السلام) کی تکذیب کرنے والے اور توحید کا انکار کرنے والے بندوں پر افسوس ! ان کے پاس جو بھی رسول توحید کا پیغام لے کر آیا۔ ماننے کے بجائے یہ اس سے استہزا کرنے لگے۔ یہ اظہار حسرت تینوں رسولوں کی طرف سے تھا یا فرشتوں کی طرف سے۔ قال الضحاک انہا حسرۃ الملائکۃ علی الکفار حین کذبوا الرسل وقیل ان الرسل الثلاثۃ ہم الذین قالو لما قتل القوم ذلک الرجل الذی جاء من اقصی المدینۃ یسعی، و حل بالقوم العذاب یا حسرۃ علی ھؤلاء کانہم تمنوا ان یکونوا قد امنوا (قرطبی ج 15 ص 23) ۔ ما یاتیہم، ماضی استمراری کے معنوں میں ہے یعنی ان کے پاس جو بھی رسول آتے رہے وہ ان سے استہزاء کرتے رہے اس سے حال یا استقبال مراد نہیں تاکہ اس سے اجراء نبوت پر استدلال کیا جاسکے۔ جیسا کہ مرزائیوں کا خیال ہے۔
Top