Jawahir-ul-Quran - An-Nisaa : 160
فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ وَ بِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَثِیْرًاۙ
فَبِظُلْمٍ : سو ظلم کے سبب مِّنَ : سے الَّذِيْنَ هَادُوْا : جو یہودی ہوئے (یہودی) حَرَّمْنَا : ہم نے حرام کردیا عَلَيْهِمْ : ان پر طَيِّبٰتٍ : پاک چیزیں اُحِلَّتْ : حلال تھیں لَهُمْ : ان کے لیے وَبِصَدِّهِمْ : اور ان کے روکنے کی وجہ سے عَنْ : سے سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ كَثِيْرًا : بہت
سو یہود کے گناہوں کی وجہ سے107 ہم نے حرام کیں ان پر بہت سی پاک چیزیں جو ان پر حلال تھیں اور اس وجہ سے کہ روکتے تھے اللہ کی راہ سے بہت
ٖ 107 پہلے فَبِمَا نَقْضِہِم وَ قَوْلَہِمْ ، وَ کُفْرِہِمْ وَ قَتْلِہِمْ سے یہود کی خباثتیں بیان کیں اور ان کی جزا بیان نہیں کی تھی اس لیے بعد عہد کی وجہ فَبِظُلْمٍ کی جامع تعبیر سے ان کی خباثتوں کے ذکر کا اعادہ کیا اور پھر حَرَّمْنَا عَلَیْھِمْ سے ان کی سزا بیان کی یعنی یہ حرمت طیبات کا حکم ان مزکورہ بالا اسباب کی بنا پر نافذ کیا گیا اور ان شرارتوں کی ان کو یہ سزا دی گئی کہ بعض حلال اور پاکیزہ چیزیں ان پر حرام کردی گئیں۔ لیکن حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ یہاں طَیِّبَات سے وہ چیزیں مراد نہیں ہیں جو سورة انعام کی اس آیت میں مذکور ہیں۔ وَعَلَی الَّذِیْنَ ھَادُوْا حَرَّمْنَا کُلَّ ذِیْ ظُفُرٍ الایۃ (انعام رکوع 18) کیونکہ یہ چیزیں تو انجیل سے پہلے ہی حرام ہوچکی تھیں لہذا ان کی حرمت کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے انکار کی سزا کیونکر قرار دیا جاسکتا ہے اس لیے یہاں مراد یہ ہے کہ حکومت اور باقی انعامات ان سے چھین لیے گئے وَاَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ الخ یہ ان کے لیے تخویف اخروی ہے۔
Top