بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Jawahir-ul-Quran - At-Tahrim : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ١ۚ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِمَ تُحَرِّمُ : کیوں آپ حرام قرار دیتے ہیں مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ : جو حلال کیا اللہ نے لَكَ : آپ کے لیے تَبْتَغِيْ : آپ چاہتے ہیں مَرْضَاتَ : رضامندی اَزْوَاجِكَ : اپنی بیویوں کی وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان ہے
اے2 نبی تو کیوں حرام کرتا ہے جو حلال کیا اللہ نے تجھ پر چاہتا ہے تو رضامندی اپنی عورتوں کی اور اللہ بخشنے والا ہے مہربان3
2:۔ ” یا ایہا النبی “ ذکر آداب بطور تمہید۔ آنحضرت ﷺ کو حلال چیزوں سے قسم کھا کر اجتناب کی ممانعت اور ازواج مطہرات کو خلاف رضاء آنحضرت ﷺ امور سے اجتناب کی تلقین فرمائی۔ یہ ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ آنحضرت ﷺ کو شہد بہت مرغوب تھا اور آپ ام المومنین حضرت زینب بنت جحش ؓ کے یہاں روزانہ شہد تناول فرماتے۔ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ ؓ نے ازراہ رقابت سوچا کہ زینب ؓ کو یہ شرف کیوں حاصل ہو۔ کسی ترکیب سے آپ کو شہد سے متنفر کیا جائے۔ چناچہ دونوں نے طے کیا کہ آپ جس کے پاس بھی آئیں وہ کہہ دے کہ حضرت ! آج آپ کے پاس سے مغافیر کی بو آر ہی ہے، کیا آپ نے مغافیر تناول فرمائی ہے، چناچہ آپ پہلے حضرت حفصہ ؓ کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے وہی بات کہی جو طے ہوچکی تھی، آپ نے فرمایا نہیں، میں نے زینب کے پاس سے شہد استعمال کیا ہے عرض کی گئی ممکن ہے مکھیوں نے عرفطہ کا رس چوسا ہو۔ مغافیر ایک قسم کا گوند تھا بدبودار جو عرفطہ درخت سے نکلتا تھا۔ آپ کو بدبو دار چیز نہایت ناپسند تھی، اس لیے آپ نے قسم کھالی کہ میں آئندہ شہد نہیں پیوں گا۔ حضرت حفصہ ؓ کو آٓپ نے یہ بھی فرمادیا کہ یہ بات کسی کو نہ بتانا، اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں (روح، خازن، معالم، قرطبی، مظہری، ابن کثیر) ۔ فرمایا : اے پیغمبر ! جس چیز کو اللہ نے تیرے لیے حلال کیا ہے، تو اس کو حرام کیوں کرتا ہے ؟ کیا اپنی بیویوں کی رضا جوئی کی خاطر ایسا کرتا ہے ؟ تو یہ چیز آپ کی شان کے زیبا نہیں۔ آپ کے حلف کا مقصد صرف یہ تھا کہ آپ نے ایک حلال چیز سے اجتناب کا پختہ اور مؤکد بالحلف فیصلہ کرلیا تھا یہ مقصد نہیں کہ حلال کو حرام قرار دے کر اس کو ترک کردیا تھا۔ یہ چیز اگرچہ فی نفسہ مباح تھی مگر خلاف اولی ہونے کی وجہ سے آپ کی شان رفیع کے خلاف تھی کہ ازواج کی رضا جوئی کے لیے آپ مرغوبات کو ترک کردیں۔ آپ کی رفعت شان اور علو مرتبت کے پیش نظر خلاف اولی کو بمنزلہ ذنب قرار دے کر فرمایا ” واللہ غفور رحیم “ یعنی توبہ کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ ایسا مہربان ہے کہ ان کے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ فیہ تعظیم شانہ ﷺ بان ترک الاولی بالنسبۃ الی مقامہ العالی الکریم یعد کالذنب وان لم یکن فی نفسہ کذلک (روح ج 28 ص 147) ۔ 3:۔ ” قد فرض اللہ “ اللہ تعالیٰ نے ایسی قسموں کو توڑنے کی اجازت دے دی ہے جو ترک حلال پر کھائی گئی ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ تمہارا ناصر و مددگار ہے جو ایسی مشکل صورتوں میں آسانی کا راستہ بتاتا ہے اور ایسی تحریمات کو کفارہ یمین ادا کر کے اٹھا دینے کی اجازت دیتا ہے۔ ولیکم و ناصرکم بازالۃ الحظر فیما تحرمونہ علی انفسکم وباالترخیص لکم فی تحلیل ایمانکم بالکفارۃ وبا لثواب علی ما تخرجونہ فی الکفارۃ (قرطبی ج 18 ص 186) ۔
Top