Kashf-ur-Rahman - Al-Kahf : 60
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتٰىهُ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤى اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِفَتٰىهُ : اپنے جوان (شاگرد) سے لَآ اَبْرَحُ : میں نہ ہٹوں گا حَتّٰى : یہانتک اَبْلُغَ : میں پہنچ جاؤ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ : دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ اَوْ : یا اَمْضِيَ : چلتا رہوں گا حُقُبًا : مدت دراز
اور وہ وقت یاد کرو جبکہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خادم سے کہا کہ میں اس وقت تک باز نہ آئوں گا جب تک دو دریائوں کے ملنے کی جگہ نہ پہنچ جائوں یا میں یونہی سالہا سال تک چلتا رہوں گا
-60 اوپر کی آیتوں میں کفار مکہ کے اس اعتراض کا جواب تھا کہ ہم غرباء کے ساتھ بیٹھ کر قرآن کریم سننے کو تیار نہیں ہیں اور چونکہ اس اعتراض کا منشا دولت پر غور اور تکبر تھا اس کی مناسبت سے دو بھائیوں کا ذکر فرمایا جس میں ایک کو اپنے باغوں پر اور اپنے حمایتوں پر گھمنڈ تھا پھر اس کے آگے ابلیس کی امانیت اور غرور وتکبر کا ذکر فرمایا۔ اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں جس میں اسی قسم کی ایک بات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے منہ سے نکل گئی بات بظاہر صحیح تھی لیکن اس کا اظہار حضرت حق جل مجدہ، کو پسند نہیں آیا وہ بات یہ کہ ایک دن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے مجمع میں تقریر فرما رہ تھے مجمع میں سے ایک شخص نے سوا ل کیا ۔ اے موسیٰ (علیہ السلام) کیا زمین پر آپ اپنے سے کسی کو زیادہ عالم پاتے ہیں آپ نے جواب دیا نہیں یہ بات اگرچہ صحیح تھی کیونکہ ایک اولوالعزم پیغمبر سے کون شخص علم میں بڑھ کر ہوسکتا ہے مگر حضرت حق کو یہ الفاظ پسند نہ آئے شاید پسندیدہ یہ ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کے سپر د کردیتے اور یوں فرماتے کہ اللہ تعالیٰ کے بہت سے مقرب اور مقبول بندے ہیں اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کس کا علم زیادہ ہے وہی خوب جانتا ہے چناچہ ارشاد ہوا کہ جہاں دو دریا ملتے ہیں وہاں ہمارا ایک بندہ ہے جو تم سے زیادہ علم رکھتا ہے اس پر موسیٰ (علیہ السلام) کو اس بندے سے ملاقات کا شوق پیدا ہوا اور انہوں نے اپنے خادم خاص کو ہمراہ لے کر سفر اختیار کیا۔ یہ خادم خاص حضرت یوشع (علیہ السلام) تھے جو بعد میں نبی اور حضرت موسیٰ کے خلیفہ ہوئے۔ اسی واقعہ کو یہاں ذکر کیا چناچہ ارشاد ہوتا ہے اور وہ واقعہ قابل ذکر ہے جبکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خادم سے فرمایا کہ میں اس وقت تک اپنے سفر سے باز نہ آئوں گا اور برابر چلتا رہوں گا جب تک کہ میں دو دریائوں کے ملنے کی جگہ نہ پہنچ جائوں یا میں یونہی سالہا سال تک اور مدت دراز تک چلتا رہوں گا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں اوپر ذکر ہوا تھا کہ کافر اپنی دنیا پر مغرور مفلس مسلمانوں کو ذلیل سمجھ کر حضرت سے چاہتے تھے کہ ان کو اپنے پاس نہ بٹھائو تو ہم بیٹھیں اسی پر دو بھائیوں کی کہاوت بیان کی اور ابلیس کا خراب ہونا اپنے غرور سے اب قصہ فرمایا موسیٰ اور خضر کا کہ اللہ والے لوگ بہتر ہوں تو آپ کو کسی سے بہتر نہیں کہتے۔ رسول نے فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم میں نصیحت فرماتے تھے ایک شخص نے پوچھا کہ یا موسیٰ تم سے بھی زیادہ کسی کو علم ہے کہا مجھ کو م علوم نہیں یہ بات تحقیق تھی پر اللہ کی خوشی تھی کہ یوں کہتے کہ مجھ سے بندے اللہ کے بہت ہیں سب کی خبر اسی کو ہے تب وحی آئی کہ ایک بندہ ہمارا ہے دو دریا کے ملاپ پاس اس کو علم زیادہ ہے تجھ سے موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی مجھ کو اس کی ملاقات میسر ہو حکم ہوا کہ ایک مچھلی تل کر ساتھ لو جہاں مچھلی گم ہو وہاں وہ ملے یہ جوان فرمایا یوشع کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خادم خاص تھے پیچھے ان کے روبرو پیغمبر ہوئے اور ان کے بعد خلیفہ ہوئے۔ 12
Top