Kashf-ur-Rahman - Al-Kahf : 9
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ وَ الرَّقِیْمِ١ۙ كَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا
اَمْ حَسِبْتَ : کیا تم نے گمان کیا اَنَّ : کہ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ : اصحاب کہف (غار والے) وَالرَّقِيْمِ : اور رقیم كَانُوْا : وہ تھے مِنْ : سے اٰيٰتِنَا عَجَبًا : ہماری نشانیاں عجب
اے پیغمبر ! کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ غار اور کھوہ والے ہماری قدرت کی نشانیوں میں سے کچھ تعجب کی چیز تھے۔
-9 آگے اصحاب کہف کے قصہ کی تمہید ہے یہود کے مشورے سے کافر عرب نے حضور ﷺ سیت ین سوال کئے تیھ ایک روح کی حققیت دوسرے اصحاب کہف کا حال تیسرے ذوالقرنین چناچہ روح کا جواب گزر چکا۔ ذوالقرنین کا حال سورت کے آخر میں آئے گا اور اصحاب کہف کا بیان یہاں ہوتا ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے اے پیغمبر کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ غار والے اور کھو والے ہماری قدرت کے نشانات میں سے کچھ تعجب اور اچنبھے کی چیز تھے۔ شاید یہود نے کہا تھا کہ اصحاب کہف کا حال عجیب و غریب ہے اس لئے فرمایا ہو کہ اصحاب کہف کے واقعہ سے زیادہ تو تم روزمرہ اس کے نشانات دیکھتے ہو ان کے مقابلے میں تو کہف والوں کا حال کچھ زیادہ تعجب انگیز نہیں ہے۔ آسمان و زمین میں جو قدرت کارفرما ہے اور قوموں کے عروج وزوال اور حق و باطل کے نشیب و فراز جو تمہاری نگاہوں سے گزرتے رہتے ہیں وہ بہت عجیب و غرب ہیں۔ اصحاب کہف اور اصحاب الرقیم اکثر مفسرین کے نزدیک ایک ہی ہیں ابن کثیر نے کہا رقیم یا توایلہ کے پاس کی دادی کا نام ہے یا اس عمارت کا نام ہے جو اس جگہ تعمیر کی گئی تھی یا پہاڑ کا نام ہے یا کسی اور آبادی کا نام۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ رقیم کو میں نہیں جانتا کہ رقیم کتاب کا نام ہے یا اس بنا کا جو وہاں تعمیر کی گئی۔ بعض نے کہا رقیم بمعنی مرقوم ہے چونکہ ایک تختی پر ان لوگوں کے حالات لکھ کر شاہی خزانے میں رکھ دیئے تھے اس لئے ان کو اصحاب رقیم کہتے ہیں۔ بعض نے اصحاب رقیم ان تین شخصوں کو کہا جن کے غار میں چھپنے اور غار کے منہ پر پتھر گر جانے کا واقعہ بخاری میں آتا ہے۔ (واللہ اعلم) رومی بادشاہوں میں سے کوئی بادشاہ بت پرست ہوگیا تھا ہوسکتا ہے کہ اس کا نام دقیانوس ہو، بہرحال وہ لوگوں کو زبردستی بتوں کی پرستش پر مجبور کرتا تھا۔ یہ چند نوجوان جو اعیان سلطنت میں سے تھے اپنے ایمان کو بچانے اور دقیانوس کے ظلم سے بچنے کے لئے پہاڑ کے کسی غار اور کھوہ میں جا چھپے تھے جن کی تفصیل انشاء اللہ آگے آئے گی ان کا کتا بھی ان کے ساتھ تھا جس کا نام ابن کثیر نے حمران بتایا ہے۔
Top