Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 157
اُولٰٓئِكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ١۫ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ عَلَيْهِمْ : ان پر صَلَوٰتٌ : عنایتیں مِّنْ : سے رَّبِّهِمْ : ان کا رب وَرَحْمَةٌ : اور رحمت وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ ھُمُ : وہ الْمُهْتَدُوْنَ : ہدایت یافتہ
یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی جانب سے خاص خاص عنایتیں بھی ہونگی اور عام رحمت بھی ہوگی اور یہی لوگ صحیح راہ یافتہ ہیں4
4 یہ حضرت صابرین وہ لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی جانب سے خاص خاص عنایتیں بھی نازل ہونگی اور عام رحمت بھی جس میں سب شریک ہوں گے ان پر توجہ ہوگی اور یہی وہ لوگ ہیں جن کی صحیح اور حقیقی مصد کی جانب رہنمائی کی گئی ہے۔ (تیسیر) صلوۃ اور رحمت متقارب المعنی ہیں ابن عباس نے فرمایا یہاں صلوٰۃ سے مراد مغفرت ہے یا ثنا حسن ہے بعض نے کہا صلوٰۃ کے ساتھ رحمت محض تاکید کے لئے کہا گیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگوں پر رحمت کے بعد رحمت اور مہربانی پر مہربانی نازل ہوتی رہے گی گویا یہ لوگ پیہم اور متواتر مہربانیوں کے مستحق ہوں گے یا وہ مطلب ہے جس کی طرف ہم نے ترجمہ میں اشارہ کیا ہے کہ عام بندوں پر جو مہربانی ہونے والی ہے اس میں تو یہ شریک ہی ہونگے اور وہ مہربانی اور رحمت تو ان کو میسر ہی ہوگی۔ اس کے علاوہ ان حضرات پر خاص مہربانیاں اور عنایتیں بھی ہونگی جو ان کی شان اور ان کے مرتبے کے مناسب ان پر نازل ہونگی۔ صحیح مقصد سے مراد جنت ہے یا راہ حق وثواب ہے اور ہوسکتا ہے کہ صبر کرنے اور انا للہ وانا الیہ راجعون کہنے کی توفیق ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اصل حقیقت کی جانب رہنمائی ہو کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو مالک اور نقصان کا تدارک کرنیوالا جان گئے اور سمجھ گئے۔ (واللہ اعلم) آیات ماسبق میں کعبہ کی تعمیر کا قبلہ مقرر کرنا مذکور تھا بیچ میں اور بہت سے ضمنی مسائل آگئے تھے اب پھر ایک خاص مسئلہ کو بیان فرماتے ہیں جس کا تعلق مناسک حج کے ساتھ ہے اور مسلمانوں میں جو ایک غلط فہمی پھیلنے کا اندیشہ تھا اس کا ازالہ کرنا مقصود ہے تاکہ صفا اور مروہ کے درمیان جو سعی کی جاتی ہے اس کو ممنوع نہ سمجھا جائے چناچہ ارشاد فرماتے ہیں (تسہیل)
Top