Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 183
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَيْكُمُ : تم پر الصِّيَامُ : روزے كَمَا : جیسے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار بن جاؤ
اے ایمان لانے والو جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر روزہ فرض کیا گیا تھا اسی طرح تم پر بھی روزے کا رکھنا فرض کیا گیا ہے اس امید پر کہ تم پرہیز گار ہوجائو5
5 اے ایمان والو ! جس طرح تم سے پہلی امتوں کے لوگوں پر روزے فرض کیا گیا تھا اور گذشتہ اقوام کو روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا تھا اسی طرح تم پر بھی اے امت محمدیہ روزہ فرض کیا گیا ہے توقع ہے کہ تم پر پرہیز گاری اور تقوے کے خوگر ہوجائو گے۔ (تیسیر) صبح صدق سے لیکر آفتاب کے چھپنے اور آفتاب کے غروب ہونے تک جملہ ماکولات و مشروبات اور جماع سے رکنے اور پرہیز کرنے کا نام روزہ ہے ۔ تشبیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی امتوں پر بھی روزہ فرض تھا مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان کے روزوں کی کیفیت اور نوعیت کیا تھی۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت آدم علیہ الصلام پر صرف ایام بیض کے روزے فرض تھے یعنی ہر مہینے کی تیرہ ، چودہ، پندرہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امت پر ہر ہفتہ کا روزہ فرض تھا اور عشرے کی دسویں تاریخ کا روزہ فرض تھا۔ نصاریٰ کے متعلق ابن حنظلہ کی روایت سے اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ ان پر رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے پھر ان کا کوئی بادشاہ بیمار ہوا تو اس کی رعایا نے منت مانی کہ اگر ہمارا بادشاہ اچھا ہوجائے گا تو ہم دس روزے بڑھا لیں گے چناچہ بادشاہ کو صحت ہوگئی تو انہوں نے تیس کے چالیس کرلئے پھر کوئی دوسرا بادشاہ بیمار ہوگیا تو اس کی صحت پر سات روزے اور بڑھا لئے پھر کسی بادشاہ نے تین بڑھا کر پورے پچاس کرلئے اور بجائے قمری حساب کے اپنا رمضان بہار کے موسم میں مقرر کرلیا۔ بہر حال قرآن سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ پہلی امتیں بھی وجوب صوم میں امت محمدیہ کی شریک ہیں مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ روزے کا وقت ان کے ہاں کیا تھا۔ عشاء کے وقت سے لیکر دوسرے دن کی مغرب تک تھا۔ جیسا کہ درمنشور کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ امت محمدیہ میں بھی ابتداء یہی وقت تھا پھر بجائے عشا کے صبح صادق کا وقت مقرر ہوا یا ان امتوں کے روزے صبح صادق ہی سے شروع ہوتے تھے امم سابقہ کا ذکر اس لئے فرمایا تاکہ روزہ لوگوں پر آسان ہوجائے اور ہر مسلمان یہ سمجھے کہ یہ کوئی نئی عبادت نہیں ہے جو صرف ہم پر ہی فرض ہوئی ہے بلکہ ہم سے پہلوں پر بھی فرض تھا اس بات سے قدرے تسکین ہوجائیگی۔ نبی کریم ﷺ کی ہجرت کے تیسرے سال رمضان کے روزے فرض ہوئے ہیں اور آپ کو اپنی مقدس زندگی میں آٹھ رمضان کے روزے رکھنے کا اتفاق ہوا ہے ان آٹھ میں سے پانچ رمضان کا چاند تو انتیس کا ہوا ہے اور باقی تین میں چار تیس کا ہوا ہے۔ تتقون کا مطلب یہ نہیں کہ بس صرف یہی حکمت ہے کہ تم متقی بن جائو بلکہ روزوں کی بیشمار مصلحتوں میں سے ایک حکمت اور مصلحت کا ذکر فرما دیا جو نمایاں تھی اور یہواقعہ ہے کہ روزے کو پرہیز گاری میں بڑا دخل ہے کیونکہ روزہ رکھنے سے نفس کو خواہشات سے روکنے کی عادت پڑے گی اور نفس کو خواہشات سے روکنا ہی تقویٰ کی بنیاد ہے۔ حضرت شاہ (رح) فرماتے ہیں یعنی روزے سے سلیقہ آ جاوے جی روکنے کا تو ہر جگہ روک سکو۔ (موضح القرآن) شاہ صاحب (رح) پر خدا کی رحمتیں نازل ہوں کیا خوب فرمایا اور کس قدر مختصر فرمایا۔ اب آگے اور سہولتیں اور رعاتیں ذکر کی جاتی ہیں ارشاد ہوتا ہے۔ ( تسہیل )
Top