Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 193
وَ قٰتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ یَكُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰهِ١ؕ فَاِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَى الظّٰلِمِیْنَ
وَقٰتِلُوْھُمْ : اور تم ان سے لڑو حَتّٰى : یہانتک کہ لَا تَكُوْنَ : نہ رہے فِتْنَةٌ : کوئی فتنہ وَّيَكُوْنَ : اور ہوجائے الدِّيْنُ : دین لِلّٰهِ : اللہ کے لیے فَاِنِ : پس اگر انْتَهَوْا : وہ باز آجائیں فَلَا : تو نہیں عُدْوَانَ : زیادتی اِلَّا : سوائے عَلَي : پر الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور ان سے اس وقت تک جنگ جاری رکھو کہ فتنہ یعنی شرک باقی نہ رہے اور دین فقط اللہ کی کا ہوجائے پھر اگر وہ لوگ باز آجائیں تو سوائے ظالموں کے کسی پر دست درازی کی اجازت نہیں1
1 اور ان کفار عرب سے اس وقت تک جنگ جاری رکھو جب تک کہ فتنہ کا بالکل سد باب ہوجائے اور دین خالص اللہ تعالیٰ ہی کا ہوجائے پھر اگر یہ کفار عرب اپنے کفر سے باز آجائیں اور مشرکانہ روش سے توبہ کرکے مسلمان ہوجائیں تو یہ بات یاد رکھو کہ دست درازی اور سزا کی سختی کی اجازت سوائے ظالموں کے اور کسی پر نہیں ہے۔ (تیسیر) یعنی ہرچند کہ عام کفار کے ساتھ جنگکا قاعدہ یہ ہے کہ خواہ وہ جارحانہ ہو یا مدافعانہ کہ ان سے کوئی معاہدہ ہوجائے یا وہ جزیہ یعنی حفاظتی ٹیکس اداکرنا قبول کرلیں تو جنگ ختم کردی جائے لیکن عرب کے بت پرستوں کے ساتھ جنگ کا یہ قاعدہ نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ وہ ہیں جن میں پیغمبر اسلام پیدا ہوئے ان کے سامنے قرآن نازل ہوا ان کے سامنے نبی کریم ﷺ کی ساری زندگی گزری اور باوجود ان تمام باتوں کو دیکھنے کے انہوں نے جو سلوک اسلام اور پیغمبراسلام اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ کیا وہ نہایت معاندانہ تھا اس لئے ان کو جزیرہ العرب سے یا تو بالکل باہر کر دیاجائے اور نکال دیاجائے یا ان کو قتل کردیاجائے یا یہ لوگ شرک چھوڑ کر اسلام کے حلقہ بگوش ہوجائیں۔ اس لئے فرمایا کہ ان سے جنگ برابر جاری رکھو یہاں تک کہ ان کا فتنہ باقی نہ رہے اور بت برستی بالکل ختم ہوجائے اور مرکز اسلام ان سے پاک ہوجائے اور عرب میں کوئی مشرک باقی نہ رہے اور دین خالص اللہ تعالیٰ ہی کیلئے ہوجائے دین کے معنی جز اور طاعت کے ہیں اگرچہ شریعت کے معنی بھی استعمال ہوتا ہے مطلب یہ ہے کہ اس مقدس سرزمین پر اللہ تعالیٰ ہی کا قانون جاری ہو اسی کی فرمانبرداری ہو اور اسی کا بھیجا ہوا دین رائج ہو اور اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو ہاں اگر یہ لوگ توبہ کرکے اسلام قبول کرلیں اور کفرو شرک سے باز آجائیں تو قانون میں سوائے ظالموں کے کسی دوسرے پر تعدی دست درازی زیادتی اور سزا میں سختی کی اجازت نہیں ہے۔ ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اسکی وضع کے خلاف استعمال کرنا اور غیر ماوضع لہ میں استعمال کرنا مثلاً کوئی ٹوپی کو جوتی کی جگہ اور جوتی کو ٹوپی کی جگہ استعمال کرے یا کرتے کو پاجامہ کی جگہ اور پاجامہ کو کرتے کی جگہ استعمال کرے تو لغت کے اعتبار سے اس کو ظالم کہا جاسکتا ہے اس معنی کی رعایت سے مشرک کو ظالم کہا جاتا ہے کہ وہ اس عبادت کو جو اللہ تعالیٰ کے لئے مقرر کر رکھی تھی ۔ بتوں کے لئے اور غیر اللہ کیلئے استعمال کرتا ہے لہٰذا سب سے بڑے ظالم وہ لوگ ہیں جو مشرک ہیں لیکن جب یہ توبہ کرکے مسلمان ہوجائیں تو ظالم نہ رہیں گے اور سزا کی سختی ہے صرف ظالموں کے لئے لہٰذا ان پر کسی سختی کی اجازت نہ ہوگی کیونکہ اب یہ ظالم اور ناانصاف نہیں رہے۔ عدد ان کے معنی تو دراصل زیادتی اور تجاوز کے ہیں اور ظاہر یہ ہے کہ کفار کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے اور جو سزا ان کو ان کے کردار کے بدلے میں دی جاتی ہے وہ ظلم اور عددان نہیں ہے بلکہ وہ حق اور انصاف ہے کیونکہ وہ تو بغاوت اور شرارت کی سزا ہے لیکن قرآن نے مماثلت اور مشارکت کی وجہ سے ظلم کی جزاء کو عددان فرما دیا۔ جیسا کہ سورة شوریٰ میں ارشاد ہے وجزائو سئیۃ سئیۃ مثلہ حالانکہ ہم قصا ص کی بحث میں بتا چکے ہیں کہ یہ تعزیر میں مثلیت کا نفاذ ناممکن ہے مثلاً گالی کی سزا گالی نہیں ہوسکتی۔ اور زنا بالجبر کی سزا زنا بالجبر نہیں ہوسکتا۔ وقس علی ہذا اس لئے یہ صرف لفظی مماثلت ہے ورنہ ہر جرم کی سزا میں حقیقی مماثلت نہیں ہے اسی طرح یہاں بھی عدوان کے لفظ کا استعمال فرمایا ہے۔ بہرحال یہاں تک مسلمانوں کے ان شکوک کا جواب ہوگیا جو عمرے کی قصا کے وقت ان کو پیش آرہے تھے اور کفار عرب کیلئے ایک مستقل قانون بھی بتادیا اب صرف ایک شبہ باقی رہ گیا وہ یہ ہے کہ عمرے کی قصا ذی قعدہ میں ادا کرنے جائیں گے اور یہ مہینہ اشہر حرام میں سے ہے اس میں جنگ کرنا ممنوع ہے اور کفار لڑنے پر تل گئے تو ہم کیا کریں گے اس کا جواب آگے کی آیت میں آتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی لڑائی کافروں سے اسی واسطے ہے کہ ظلم موقوف ہو اور دین سے گمراہ نہ کرسکیں اور حکم اللہ کا جاری رہے اگر تابع ہوکر رہیں تو لڑائی کی حاجت نہیں اور ایمان تو دل پر موقوف ہے زور سے مسلمان کرنا کیا حاصل۔ (موضح القرآن) سبحان اللہ شاہ صاحب (رح) نے چند سطروں میں کیا خوب بات فرمائی اور جہا د کا فلسفہ کس خوبی سے بیان فرمایا چند لفظوں میں وہ بات سمجھا دی جو آج کل لوگوں کی سمجھ میں بڑی مشکل سے آتی ہے یعنی جہاد کا مقصد کسی شخص کے ضمیر کی آزادی کو سلب کرنا نہیں اور نہ جہاد اس غرض سے کیا جاتا ہے کہ کسی کو زبردستی مسلمان بنایاجائے بلکہ جہاد تو محض اس لئے کیا جاتا ہے کہ شرارت پسندوں کی شرارت اور فساد سے لوگوں کی آزادی کو محفوظ رکھاجائے اور اسلامی پروگرام کی ترویح میں جو لوگ رکاوٹ پیدا کریں ان کو سزا دی جائے اور ان سے لڑ کر ان کو شکست دی جائے اور ان کو محکوم کیا جائے اور خدا تعالیٰ کے دین پر عمل کرنے میں کسی شخص کو رخنہ اندازی اور مفاد مت کرنے کا موقع نہ دیاجائے اس سے زیاہ جہاد کا کوئی اور مقصد نہیں ہے اسلامی قانون جنگ پر احقر کا ایک مقالہ بھی ہے جو ریڈیو کی تقریروں میں شائع ہوچکا ہے اور سید ابو الاعلی مودودی کی ایک مستقل کتاب بھی ہے اور اس میں سید صاحب نے اس مسئلہ پر سیرحاصل بحث کی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ خو بحث کی ہے اور وہ کتاب ہر تعلیم یافتہ آدمی کو مطالبہ میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ سید ابو الا علی مودودی کی کتاب کا نام بھی غالباً اسلام کا قانون جنگ ہی ہے (نسہیل)
Top