Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 197
اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ١ۚ فَمَنْ فَرَضَ فِیْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ١ۙ وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ١ؕ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْهُ اللّٰهُ١ؔؕ وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى١٘ وَ اتَّقُوْنِ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ
اَلْحَجُّ : حج اَشْهُرٌ : مہینے مَّعْلُوْمٰتٌ : معلوم (مقرر) فَمَنْ : پس جس نے فَرَضَ : لازم کرلیا فِيْهِنَّ : ان میں الْحَجَّ : حج فَلَا : تو نہ رَفَثَ : بےپردہ ہو وَلَا فُسُوْقَ : اور نہ گالی دے وَلَا : اور نہ جِدَالَ : جھگڑا فِي الْحَجِّ : حج میں وَمَا : اور جو تَفْعَلُوْا : تم کروگے مِنْ خَيْرٍ : نیکی سے يَّعْلَمْهُ : اسے جانتا ہے اللّٰهُ : اللہ وَتَزَوَّدُوْا : اور تم زاد راہ لے لیا کرو فَاِنَّ : پس بیشک خَيْرَ : بہتر الزَّادِ : زاد راہ التَّقْوٰى : تقوی وَاتَّقُوْنِ : اور مجھ سے ڈرو يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ : اے عقل والو
زمانہ حج کے چند مہینے ہیں جو معروف و مشہور ہیں پھر جس نے ان مہینوں میں اپنے اوپر حج لازم کرلیا تو زمانہ حج میں نہ بےحجابی کی باتیں کرنا جائز ہے اور نہ بےحکمی کرنا اور نہ باہم کسی قسم کا جھگڑا کرنا اور تم جو بھلائی کرو اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے اور زاد راہ ہمراہ لے لیا کرو کیونکہ زاد راہ کا بہترین فائدہ گناہ سے بچنا ہے اور اے صاحبان عقل مجھ سے ڈرتے رہو۔2
2 ارکان حج بجا لانے کا زمانہ چند مہینے ہیں پھر جس شخص نے ان مہینوں میں حج کی نیت کے ساتھ احرام باندھ کر اور تلبیہ پڑھ کر اپنے اوپر حج کو لازم اور واجب کرلیا تو اس کو ایام حج میں تو بےحجابی ہوں یا اب احرام باندھنے کی وجہ سے ہوگئے ہوں اور نہ باہمی لڑنا جھگڑنا درست ہے اور تم جو نیک کام کرو اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہوتا ہے اور دیکھو کھانے پینے کا سامان اور خرچ وغیرہ ساتھ لیکر جایا کرو کیونکہ سب سے بہتر زاد راہ تقویٰ ہے یعنی سفر حج میں زاد راہ کے ہمراہ لینے کا بہترین نفع اور فائدہ گدا گری اور لوٹ مار سے بچنا اور پرہیز کرنا ہے اور اے ارباب عقل و خرد میری گرفت اور میر سے عذاب سے ڈرتے رہو اور میرے احکام کی خلاف ورزی سے بچتے رہو۔ (تیسیر) اشہر حج سے شوال ذیقعدہ اور ذی الحجہ کے دس دن مراد ہیں دو مہینے اور دس 01 دن پر جمع کا لفظ بولا گیا ہے جیسا کہ کبھی دو پر بھی جمع کا اطلاق کردیاجاتا ہے یا دس دن کو پورے مہینے کے حکم میں لگا یا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دسویں تاریخ کی صبح صادق تک بھی احرام کے ساتھ کسی کو وقوف عرفات میسر ہوگیا تو اس کا حج ہوجائے گا ان ہی مہینوں میں حج کا احرام باندھنا درست ہوگا اگر شوال سے پہلے کوئی حج کا احرام باندھ لے گا تو مکروہ ہوگا وجوب حج کے لئے صرف احرام کا باندھ لینا کافی نہیں ہے حنفیہ کے نزدیک احرام کے ساتھ تلبیہ بھی پڑھنا ضروری ہے۔ رفث کو ہم نے ایک رکوع پہلے بھی عرض کیا تھا یہاں احرام کے بعد اپنی بیوی سے جماع کرنا یا اس کو اس غر ض کے لئے آمادہ کرنا یا اور دوسرے دواعی کا استعمال کرنا مراد ہے اگرچہ کھلم کھلا بےشرمی کی باتیں عام طورپر بھی ناجائز ہیں لیکن احرام باندھنے کے بعد اپنی بیوی سے بھی ایسی باتیں کرنا ناجائز ہیں ۔ فسوق سے مراد ہر قسم کی بےحکمی ہے خواہ وہ پہلے ہی سے ناجائز ہو یا احرام کی وجہ سے جو پابندیاں عائد ہوتی ہیں ان کی خلاف ورزی ہو فسق بہرحال ناجائز ہے جنگ وجدال یوں بھی بری چیز ہے اور احرام باندھنے کے بعد اور بھی بُری ہے وما تفعلوا من خیر کا مطلب یہ ہے کہ تم جو نیک کام کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہوتا ہے چونکہ ہر خادم اور غلام کی یہی خواہش ہوتی ہے اس کی کار گذاری اور خدمت گزاری کا علم اس کے آقا کو حاصل ہوجائے تاکہ وہ خادم انعام و اکرام کا مستحق ہو۔ اس لئے ارشاد فرمایا کہ تم جو اطاعت گزاری اور کار خیر بجالاتے ہو اس سب سے ہم باخبر اور واقف ہوتے ہیں یمن کے بعض لوگ بغیر سامان کے اور بغیر خرچ کے حج کو جایا کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ ہم خدا پر بھروسہ رکھتے ہیں اور متوکل ہیں ہر شخص اپنے مہمان کو کھانا کھلاتا ہے جب ہم اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں تو کیا اللہ تعالیٰ اپنے مہمانوں کو بھوکا رکھے گا اس خیال سے بغیر سفر کا خرچ اور کھانے کا سامان لئے چل کھڑے ہوتے تھے پھر جب راستے میں پریشان ہوتے تو بھیک مانگتے حاجیوں کو تنگ کرتے اور موقعہ ملتا تو لوٹ مار بھی کرلیتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا حج کو جائو تو توشہ ہمراہ لے کر جائو کیونکہ بہترین توشہ پرہیز گاری ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سفر سے مراد سفر آخرت ہو۔ دنیا میں ہر شخص مسافر ہے اور سفر کے لئے تقویٰ اور پرہیز گاری کو توشہ بنانے کی طرف اشارہ ہو کیونکہ اس سفر میں ج س کے پاس پرہیز گاری کا توشہ ہوگا وہی مسافر کامیاب ہوگا۔ بہرحال اگر کسی کو صحیح توکل میسر نہ ہو تو اس کو اپنے ہمراہ خرچ اور کھانے پینے کا سامان ضرور رکھناچاہئے اس کا یہ فائدہ ہوگا کہ گدا گری اور لوٹ مار سے محفوظ رہے گا آیت کے آخر میں اہل عقل و فہم سے اپیل کی ہے کہ مجھ سے ڈرتے رہو چونکہ عقل وفہم اور علم کا مقتضا خوف و حشیت ہے اس لئے اہل عقل کو مخاطب بنایا۔ لُب کے معنی ہیں عقل خالص حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حج کے واسطے احرام باندھنے کا وقت ہے غرہ شوال سے تاشب عید قرباں اس سے پہلے بہتر نہیں اور حج اور عمرہ لازم کرلینا احرام سے ہے احرام یہ کہ نیت کرے شروع کرنے کی اور زبان سے کہے لبیک تمام پھر جب احرام میں داخل ہوا تو پرہیز رکھے مرد عورت کی صحبت سے اور ہر گناہ سے آپس کے جھگڑے سے اور بدن کے بال اتارنے سے اور ناخن تراشنے سے اور خوشبو ملنے سے اور شکار مارنا منع ہوا اور مرد بدن پر سلے کپڑے نہ پہنے اور سر نہ باندھے اور عورت کپڑے پہنے سر ڈھانکے لیکن منہ پر کپڑا نہ ڈالے اور کفر کی غلطی ایک یہ تھی کہ بغیر خرچ کے حج کو جانا ثواب گنتے تھے اور توکل پر مقدور ہوتے ہوئے خرچ نہ لیتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مقدور ہو تو خرچ لے کر جائو بڑا فائدہ یہ کہ سوال نہ کرو ( موضح القرآن) خلاصہ یہ ہے (1) کہ شوال ذیقعدہ اور دس دن ذوالحجہ کے یہ حج کے مہینے ہیں ان دنوں میں جو حج کی نیت سے جو احرام باندھ کر تلبیہ پڑھ لے گا اس پر حج کا پورا کرنا ضروری ہوگا اور وہ ارکان حج کے پورا کئے بغیر احرام نہیں کھول سکے گا۔ تلبیہ یہ ہے لبیک اللم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک (2) اسی طرح عمرے کی نیت سے جو احرام باندھ کر تلبیہ پڑھ لے وہ جب تک عمرہ پورا نہ کرے اور احرام نہیں کھول سکتا۔ ہاں عمرے کے لئے کوئی مہینہ مخصوص نہیں ہے جب چاہے عمرہ کرسکتا ہے۔ (3) احرام باندھنے کے بعد رفث اور فسوق اور جدال سے اجتناب کرے شکار نہ کرے اور نہ کسی کو اشارہ کرکے شکار بتائے اور نہ اور کسی طرح شکار کو بتائے سلے ہوئے کپڑے کو کرتہ ہو یا پاجامہ نہ پہنے، بال نہ کتروائے، سر نہ ڈھانکے، ناخن نہ کتروائے ، منہ نہ ڈھانکے ایسی جوتی نہ پہنے جس سے ٹخنے ڈھک جائیں۔ (4) جس کو صحیح توکل کی دولت میسر نہ ہو وہ بغیر زاد راہ لئے سفر نہ کرے باقی مسائل کتب فقہ میں ملاحظہ فرمائیے۔ (تسہیل)
Top