Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 199
ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
ثُمَّ : پھر اَفِيْضُوْا : تم لوٹو مِنْ حَيْثُ : سے۔ جہاں اَفَاضَ : لوٹیں النَّاسُ : لوگ وَاسْتَغْفِرُوا : اور مغفرت چاہو اللّٰهَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
پھر اس کا خیال رکھو کہ تم بھی وہیں جاکر واپس آیا کرو جہاں سے عام لوگ واپس آیا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے توبہ کرو بیشک اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے2
2 پھر دیکھو اے قریش اس کا خیال رکھو جہاں سے سب لوگ وقوف کرکے واپس آتے ہیں یعنی عرفات سے تو تم بھی وہیں جاکر وہاں سے لوٹا کرو یہ نہ کیا کرو کہ مزدلفہ ہی میں رہ جایا کرو اور زمانہ جاہلیت میں جو کرتے رہے اس سے توبہ کرو اور آئندہ کے لئے ان رسوم کا ارادہ ترک کردو اگر ایسا کرو گے تو یقین جانو ! اللہ تعالیٰ غفور ہے تمہاری سابقہ خطائوں کو معاف کردے گا اور وہ بڑا رحیم ہے آئندہ تم پر مہربانی کرے گا اور تم کو عمل خیر کی توفیق عطا فرمائے گا۔ (تیسیر) مکہ کے قریش اپنے آپ کو مجاور حرم سمجھتے تھے اس لئے جب حج کو نکلتے تو منا سے چل کر مزدلفہ میں ٹھہر جاتے اور سب لوگوں کے ساتھ عرفات میں نہ جاتے اور کہتے ہم اللہ والے اور حرم کے رہنے والے ہیں ہم حرم سے باہر نہیں جائیں گے اور عام لوگوں کے ساتھ عرفات میں جاکر ٹھہرنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔ مزدلفہ چونکہ حرم میں ہے اور عرفات حرم سے باہر ہے اس لئے قریش عرفات میں نہ جاتے تھے اس لئے ان کو تنبیہ فرمائی کہ حج کے احکام بجا لانے میں مجاور اور غیر مجاور سب برابر ہیں۔ یہ زمانہ جاہلیت کی باتیں ہیں ان سے اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ کرو وقوف عرفہ تو حج کا فرض ہے وقوف عرفہ نہ ہوگا تو حج ہی نہ ہوگا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہ بھی کفر کی غلطی تھی کہ مکہ کے ساکن عرفات تک نہ جاتے کہ عرفات حرم کے باہر ہے حرم کی حد پر کھڑے رہتے سو فرمایا کہ جہاں سے سب لوگ چلیں طواف کو تم بھی چلو اور اگلی تقصیر پر نادم ہو۔ (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب (رح) کے حاشیہ پر کچھ عرض کرنے کی ضرورت نہیں صرف اتنی بات یاد رکھنی چاہئے کہ جاہلیت اور کفر کی تمام رسوم اس قابل ہیں کہ ان کو ترک کیا جائے اور صرف شریعت محمدیہ ﷺ کی پابندی کی جائے۔
Top