Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 203
وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ١ؕ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِ١ۚ وَ مَنْ تَاَخَّرَ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِ١ۙ لِمَنِ اتَّقٰى١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ
وَاذْكُرُوا : اور تم یاد رکھو اللّٰهَ : اللہ فِيْٓ : میں اَ يَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ : دن۔ گنتی کے فَمَنْ : پس جو تَعَجَّلَ : جلد چلا گیا فِيْ : میں يَوْمَيْنِ : دو دن فَلَآ : تو نہیں اِثْمَ : گناہ عَلَيْهِ : اس پر وَمَنْ : اور جس تَاَخَّرَ : تاخیر کی فَلَآ : تو نہیں اِثْمَ : گناہ عَلَيْهِ : اس پر لِمَنِ : لیے۔ جو اتَّقٰى : ڈرتا رہا وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّكُمْ : کہ تم اِلَيْهِ : اس کی طرف تُحْشَرُوْنَ : جمع کیے جاؤگے
اور گنتی کے چند دنوں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہو پھر جو کوئی منیٰ سے جلدی کرکے دو ہی دن میں چلا گیا تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں اور جس نے دو دن سے تاخیر کی تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں یہ سب باتیں اس شخص کے لئے ہیں جو خدا سے ڈرے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور یہ بات اچھی طرح جان لو کہ تم سب اسی کے روبرو جمع کئے جائو گے۔1
1 اور منیٰ میں اللہ تعالیٰ کا گنتی کے چند روز تک ذکر کرتے رہو یعنی دس ۔ گیارہ۔ بارہ یا تیرہ بھی اور جو شخص دسویں کے بعد دو ہی دن میں مکہ واپس آنے میں جلدی کرے تو اس پر بھی کچھ گناہ نہیں اور جو مکہ واپس ہونے کے لئے ان دونوں میں تاخیر کرے یعنی بجائے بارہویں کے تیرھویں کو آئے تو اس پر بھی کچھ گناہ نہیں یہ سب طور طریقے اس شخص کے لئے ہیں جو اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور جو نہ ڈرے اس کو گناہ ثواب سے کیا۔ غرض اور تم لوگ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے ڈرتے رہو اور اس بات کو خوب جان لو کہ تم سب اسی کے حضور میں جمع کئے جائو گے۔ (تیسیر) مزدلفہ کی واپسی پر منا میں قیام کرنے کا حکم ہے یہاں دس تاریخ کی صبح کو پہونچتے ہیں منامین تین پتھر ہیں جن کو جمرہ کہتے ہیں ان پر سات سات کنکریاں ماری جاتی ہیں کنکریاں مارنے کو رمی کہتے ہیں۔ دسویں تاریخ کو تو صرف جمرہ عقبہ کی رمی ہوتی ہے باقی گیارہ بارہ کو اور کوئی ٹھہرے تو تیرہ کو بھی تینوں جمروں کی رمی کی جاتی ہے جمرئہک عقبہ کی رمی کا وقت طلوع صبح صادق کے بعد سے شروع ہوجاتا ہے ہر کنکری مارتے وقت اللہ اکبر کہنا مستحب ہے گیارہ بارہ کو تینوں جمروں کی رمی کی جاتی ہے اور ان تاریخ میں رمی کا وقت زوال کے بعدش روع ہوجاتا ہے اور کوئی تیرہ کو بھی ٹھہرے تو اس دن بھی رمی کرنا ضروری ہوتا ہے مگر حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک تیرھویں کی صبح صادق کے بعد بھی رمی کی جاسکتی ہے اگرچہ افضل یہی ہے کہ تیرھویں کو بھی زوال کے بعد رمی کی جائے آیت میں انہی تین دنوں کی طرف اشارہ ہے اختیار ہے کہ بارھویں کو تینوں جمروں کی رمی کرکے مکہ چلے آئو۔ اور چاہو تو تیرہ کو رمی کرکے آئو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ان آیتوں میں یہ فرمانا کہ کفر کے وقت دستور تھا کہ حج سے فارغ ہوکر تین روز عید کے بعد خوشی کرتے اور بازار لگاتے اور اپنے باپ دادوں کے سا کے بیان کرتے اب اللہ نے تین روز ٹھہرنا مقرر کیا کہ اللہ کو یاد کرو ان دنوں میں دوپہر کو کنکر پھینکتے ہیں اور ہر نماز کے بعد تکبیر کہتے ہیں اور سوائے نماز ہر وقت اور کوئی چاہے تو دو ہی دن رہ کر رخصت ہو اور یہ تین دن رہے تو بہتر اور یہ فرمایا جن کو رغبت نری دنیا پر ہے وہ آخر ت سے محروم ہیں اب حج کا مذکور ہوچکا ہے (موضح القرآن) خلاصیہ یہ کہ اسلام نے اس مذموم رسم کو بھی بدل دیا کیونکہ گذشتہ باپ دادوں کا ذکر کرنا ایک قسم کا بےجا فخر اور بےکاربات تھی ان کے واقعات کو دہرانے سے نہ ان کو کچھ فائدہ نہ بیان کرنے والوں کو کچھ حاصل اسکی جگہ اللہ تعالیٰ کا ذکر مقرر کیا گیا حج کے ذکر میں چونکہ دو قسم کے لوگوں کا ذکر آیا تھا ایک وہ جو دنیا ہی دنیا چاہتے ہیں دوسرے وہ جو دارین کی بھلائی کے طالب ہیں اب آگے اسی قسم کے دو شخصوں کا ذکر فرماتے ہیں ایک بد ترین منافق ہے اور دوسرا مخلص مسلمان ہے۔ (تسہیل)
Top