Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 227
وَ اِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَاِنْ : اور اگر عَزَمُوا : انہوں نے ارادہ کیا الطَّلَاقَ : طلاق فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : خوب سنے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور اگر یہ لوگ چھوڑنے ہی کا پختہ ارادہ کرلیں تو اللہ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے3
3۔ جو لوگ اپنی بیویوں سے ایلا کرلیں یعنی ان سے ہم بستر ہونے کی قسم کھا لیں تو ان کے لئے چار مہینے انتظار کی مہلت ہے ، لہٰذا یہ ایلا کرنے والے مرد اگر رجوع کرلیں اور قسم توڑ کر اپنی بیویوں سے ہم بستر ہوجائیں تو یقین جانو ! اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت کا مالک ہے ، کفارہ ادا کرنے سے قسم توڑنے کا گناہ معاف کر دے گا اور بڑی رحمت والا ہے۔ عورت کو ایلا سے جو تکلیف پہنچائی ہے رجوع کرلینے سے تم پر مہربانی فرمائے گا اور اگر یہ لوگ عورتوں کو طلاق دینے ہی کا پختہ ارادہ کرلیں تو اللہ تعالیٰ سب سننے والا اور سب باتوں کا جاننے والا ہے ۔ تمہاری قسموں کو سنتا ہے اور تمہارے دل کے ارادہ کو جانتا ہے۔ ( تیسیر) تربص کے معنی ہیں انتظار کرنے کے ۔ یہاں فرصت ، مہلت ، موقع کے الفاظ سے ترجمہ کیا گیا ہے ہم نے تیسیر میں دونوں معنی کی رعایت رکھی ہے۔ عزم عزیمۃ قلب کی اس پختگی اور مضبوطی کو کہتے ہیں، جس کے بعد انسان اپنے ارادہ کو کر گزرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس قسم کو جو اپنی بیوی سے ہم صحبت ہونے پر کھائی جائے اور یہ الفاظ کہے جائیں کہ خدا کی قسم میں تیرے پاس نہیں جائوں گا یا چار مہینے تک نہیں جائوں گایا چار مہینے تک نہیں جائوں گا یا چار ماہ سے زائد کسی مدت کا نام لے کر کہے یہ سب ایلا ہوگا ۔ چونکہ شریعت میں ایلا کی مدت چار ماہ ہے اس لئے خواہ کسی مدت کا نام لے یا نہ لے یا چار ماہ کا نام لے کر قسم کھائے یا چار ماہ سے زائد مدت کا نام لے کر قسم کھائے ۔ مثلاً یوں کہے کہ خدا کی قسم میں چھ ماہ تک یا سال بھر تک تیرے پاس نہ جائوں گا ۔ ہر حال میں چار ماہ کا موقع ہوگا اگر چار ماہ کے اندر اندر اس کے پاس چلا گیا تو قسم کا کفارہ دینا ہوگا اور وہ عورت بدستور اس کی بیوی رہے گی اور اگر چار ماہ تک گھر والی سے ہم بستر نہ ہو اور چار ماہ پورے ہوگئے تو عورت پر بائن طلاق ہوجائے گی یعنی یہ عورت نکاح سے نکل جائے گی ۔ ہاں اس سے دوبارہ نکاح ہو سکے گا ۔ بشرطیکہ عورت راضی ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ طلاق مغلظہ نہ ہوگی کہ حلالہ کی ضرورت پڑے بلکہ بغیر حلالہ کے اگر دونوں نکاح کرنا چاہیں تو نکاح ہو سکے گا ۔ ایک صورت باقی رہ گئی وہ یہ کہ اگر کوئی شخص چار ماہ سے کم مدت کی قسم کھالے۔ مثلاً کہے خدا کی قسم میں ایک ماہ تک یا دو ماہ تک یا تین ماہ تک تجھ سے ہم بستر نہ ہوں گا ۔ تو یہ قسم شرعا ً ایلا نہ ہوگی ۔ بلکہ اس کا حکم عام قسم کا حکم ہوگا اگر مدت سے پہلے گھر والی کے پاس چلا گیا تو قسم ٹوٹ جائے گی کفارہ دینا ہوگا اور اگر مدت پوری کردی تب وہ عورت بدستور بیوی رہے گی طلاق واقع نہ ہوگی اور قسم ختم ہوجائے گی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی جس نے قسم کھائی کہ اپنی عورت کے پاس نہ جاوے تو چار مہینے میں جاوے اور قسم کی کفارت دے نہیں تو طلاق ٹھہرے۔ ( موضح القرآن) اب اسی سلسلے میں عورت کے حقوق اور طلاق و عدت کے چند مسائل کا ذکر فرماتے ہیں۔ ( تسہیل)
Top