Kashf-ur-Rahman - An-Noor : 22
وَ لَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَ السَّعَةِ اَنْ یُّؤْتُوْۤا اُولِی الْقُرْبٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١۪ۖ وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْا١ؕ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَلَا يَاْتَلِ : اور قسم نہ کھائیں اُولُوا الْفَضْلِ : فضیلت والے مِنْكُمْ : تم میں سے وَالسَّعَةِ : اور وسعت والے اَنْ يُّؤْتُوْٓا : کہ (نہ) دیں اُولِي الْقُرْبٰى : قرابت دار وَالْمَسٰكِيْنَ : اور مسکینوں وَالْمُهٰجِرِيْنَ : اور ہجرت کرنیوالے فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ میں وَلْيَعْفُوْا : اور چاہیے کہ وہ معاف کردیں وَلْيَصْفَحُوْا : اور وہ در گزر کریں اَلَا تُحِبُّوْنَ : کیا تم نہیں چاہتے ؟ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ : کہ اللہ بخشدے لَكُمْ : تمہیں وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اور جو لوگ تم میں سے بڑے مرتبے والے اور صاحب وسعت ہیں وہ قرابت داروں اور محتاجوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کی آئندہ مالی خدمت کرنے سے قسم نہ کھابیٹھیں بلکہ ان کو چاہئے کہ ایسے لوگوں کا قصور معاف کردیں اور ان سے درگزر کریں کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہای خطائوں کو معاف کرے اور یاد رکھو اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے
(22) چنانچہ ارشاد ہوتا ہے اور جو لوگ تم میں سے دینی بزرگی اور بڑے مرتبے والے ہیں اور دنیوی وسعت اور کشائش والے ہیں ان کو یہ نہیں چاہئے کہ وہ قرابت داروں اور محتاجوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کی آئندہ مالی خدمت کرنے سے قسم کھالیں اور قسم کھابیٹھیں کہ آئندہ کوئی امداد نہیں کریں گے بلکہ ان کو چاہئے کہ ایسے لوگوں کا قصورمعاف کردیں اور ان سے درگزر کریں کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری خطائوں کو معاف فرمادے اور یاد رکھو اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ یعنی دین کی بزرگی اور دنیا کی کشائش والوں کو یہ بات نہیں چاہئے کہ وہ مسطح کی مالی امداد سے ہاتھ روک لیں جو قرابت دار بھی ہے مسکین بھی ہے اور مہاجر۔ فی سبیل اللہ بھی ہے ایسے آدمی پر قسم کھا بیٹھیں کہ اس کی امداد نہ کروں گا اگر اس سے کوئی قصور ہوگیا ہے اور وہ باوجودمخلص ہونے کے عائشہ ؓ کے مخالفوں کے ساتھ ہوگیا تو تم کو چاہئے کہ اس سے درگزر کرو اور اس کے قصور معاف کرو کیا تم کو یہ بات پسند نہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے قصوروں کو معاف فرمائے۔ چنانچہ یہ سن کر صحابہ ؓ نے کہا بلی یا ربنا انا نحب ہاں ہم اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری تقصیرات کو معاف فرمائے اور جب تم یہ بات پسند کرتے ہو تو تم اپنے عزیزوں کی خطا کیوں نہیں معاف کرتے تم کو چاہئے کہ تم بھی اللہ تعالیٰ کا طریقہ اور اس کی روش اختیار کرو اللہ تعالیٰ غفور بھی ہے اور رحیم بھی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جب طوفان اٹھانے والے جھوٹے پڑے اور ان کو حد ماری گئی اسی 80 کوڑے ان میں دو تین مسلمان تھے ایک شخص مسطح ابوبکر صدیق ؓ کا بھانجہ مفلس یہ اس کی خبر لیتے تھے اب سے قسم کھائی کہ اس کو میں کچھ نہ دوں گا اللہ تعالیٰ نے اس کی سفارش کردی وہ تھا مہاجرین سے اہل بدر کے بڑائی والے کہا صدیق اکبر ؓ کو جوان کی بڑائی نہ مانے اللہ سے جھگڑے پھر انہوں نے قسم کھائی کہ جو دیتا تھا کبھی نہ بند کروں گا۔ 12 خلاصہ ! یہ ہے کہ صدیق اکبر ؓ نے آیت کو سن کر پہلی قسم توڑی اس کا کفارہ دیا اور دوسری قسم کھائی امداد بند نہ کرنے کی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ کمزوروں اور غریبوں کا قصور معاف کرنا اللہ تعالیٰ کی بخشش کا سبب ہے رسول اللہ ﷺ سے کسی نے دریافت کیا یا رسول اللہ اپنے غلام کا دن رات میں کتنی مرتبہ قصور معاف کردیا کروں۔ فرمایا ستر 70 بار۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ قسم کھا کر توڑ دینا افضل معلوم ہو تو قسم توڑ کر کفاروہ دیدے۔ یہ کفارہ بھی موجب اجر ہے۔ حضرت صدیق ؓ کی فضیلت اور آپ کا افضل ہونا بھی ثابت ہوا۔ اسی لئے شاہ صاحب (رح) نے فرمایا کہ جو ان کی بزرگی کا انکار کرے وہ اللہ تعالیٰ سے جھگڑے۔ شاہ صاحب (رح) کا اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جو معاذ اللہ صدیق اکبر ؓ کی تنقیص کرتے ہیں عفو و درگزر کے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا ہے۔ من کان یرجوا عفو من فوقہ فلیعف عن ذنب الذی دونہ اللہ تعالیٰ جن کو اولو الفضل فرمائے ان کے فضل کا کیا ٹھکانا ہے۔ لایعرف الفضل لاھل الفضل الا اولوا الفضل۔ صاحب فضل ہی اہل فضل کو جانتا ہے ایک فارسی کے شاعر نے کیا خوب فرمایا ہے یہ شاعر غالباً حکیم سنائی ہیں۔ بود چنداں کرامت و فضلش کہ اولو الفضل خواند ذوالفضلش صورت و سیرتش ہمہ جان بود زاں زچشم عوان پنہاں بود روز و شب سال و ماہ درہمہ کار ثانی اثنین اذہمانی الغار
Top