Kashf-ur-Rahman - An-Noor : 38
لِیَجْزِیَهُمُ اللّٰهُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَ یَزِیْدَهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ
لِيَجْزِيَهُمُ : تاکہ انہیں جزا دے اللّٰهُ : اللہ اَحْسَنَ : بہتر سے بہتر مَا عَمِلُوْا : جو انہوں نے کیا (اعمال) وَيَزِيْدَهُمْ : اور وہ انہیں زیادہ ہے مِّنْ فَضْلِهٖ : اپنے فضل سے وَاللّٰهُ : اور اللہ يَرْزُقُ : رزق دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جسے چاہتا ہے بِغَيْرِ حِسَابٍ : بےحساب
ان لوگوں کے ان نیک کاموں کا انجام یہ ہوگا کہ خدا ان کو ان کے اعمال کا اچھے سے اچھا صلہ دے گا اور اپنے فضل سے ان کو اور زیادہ بھی دے گا اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے بےحساب روزی دیتا ہے
(38) ان لوگوں کا مال اور انجام یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے اعمال کا بہت اچھا صلہ اور بدلہ دے گا اور علاوہ بدلے کے ان کو اپنے فضل سے اور زیادہ بھی دے گا اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے بیشمار اور بےحساب روزی دیتا ہے۔ بیوت سے مراد مساجد ہیں یعنی یہ چراغ یا جن کے سینوں میں یہ نور ہدایت روشن ہے اقوال مختلفہ کی بنا پر ہم نے ترجمے اور تیسیر میں فرق کردیا ہے ان گھروں کے متلعق اللہ نے حکم دیا ہے کہ ان کو بنایا جائے اور ان کو بلند کیا جائے یا یہ کہ ان کا ادب و احترام اور توقیر و تعظیم کی جائے ان میں کوئی نکمی اور فضول باتیں نہ کی جائیں۔ حائضہ اور نفسا عورتیں اور جنبی لوگ اس میں داخل نہ ہوں دنیا کے کام اور باتیں وہاں نہ کی جائیں۔ ہرچند کہ مساجد کے سلسلے میں مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں جن میں سے حضرت مجاہد اور حضرت حسن کا قول بوجہ اظہر ہونے کے اختیار کرلیا ہے اللہ تعالیٰ کا نام ان مساجد میں لیا جاتا ہے اس لئے ان کے احترام کا حکم دیا گیا۔ صبح اور شام سے بعض حضرات نے صبح اور عصر کی نماز مرادلی ہے اور اکثر حضرات نے غدو سے صبح کی اور آصال سے باقی چار نمازیں مراد لی ہی آگے ایک سوال کا جواب فرمایا کہ یہ نمازیں وہ لوگ پڑھتے ہیں کہ وہ لوگ ایسے اہل عزیمت ہیں جن کو خریدوفروخت جو بڑے شغل اور غفلت کا کام ہے اللہ تعالیٰ کی یاد سے نہیں روکتا اور خاص کر نماز پڑھنے اور زکوٰۃ ادا کرنے سے دنیوی کام ان کو مانع نہیں ہوتے وہ اس دن سے ہمیشہ ڈرتے رہتے ہیں جس دن کی ہیبت سے نہ دل قبضے میں رہیں گے نہ آنکھیں۔ آنکھیں اوپر لگ جائیں گی اور دل الٹ پلٹ ہوجائیں گ آگے انجام فرمایا کہ اس قسم ک لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ بہت دیا جائے گا یعنی جو وعدہ کیا گیا ہے وہ پورا ہوگا اور اس کے علاوہ بھی اپنے فضل سے اور زیادہ بھی دے گا۔ جیسا کہ سورة یونس میں للذین احسنوا الحسنیٰ وزیادۃ۔ چونکہ زیادتی میں اجمال ہے اس لئے اللہ تعالیٰ ہی اس زیادتی کو جانتا ہے۔ مفسرین کے مختلف اقوال ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ان گنت اور بیشمار روزی سے سرفراز فرماتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ایمان کی برکت سے مومن کو نیک عمل کا بدلہ ہے اور بدعمل معاف اور کفر کی شامت سے کافر کو بدعمل کی سزا ہے اور نیک عمل خراب یہی فرمایا کہ بہتر سے بہتر کام کا۔ 12
Top