Kashf-ur-Rahman - Al-Ankaboot : 2
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ
اَحَسِبَ : کیا گمان کیا ہے النَّاسُ : لوگ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا : کہ وہ چھوڑ دئیے جائیں گے اَنْ : کہ يَّقُوْلُوْٓا : انہوں نے کہہ دیا اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے وَهُمْ : اور وہ لَا يُفْتَنُوْنَ : وہ آزمائے جائیں گے
کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ صرف اتنا کہہ دینے پر کہ ہم ایمان لے آئے چھوڑ دیئے گئے اور وہ کسی آزمائش میں نہ ڈالے جائیں گے
2۔ کیا ان لوگوں نے یہ سمجھ لیا اور یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اتنا کہہ دینے پر کہ ہم ایمان لے آئے چھوڑ دیئے جائیں گے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا اور وہ کسی آزمائش میں مبتلا نہ کئے جائیں گے۔ یعنی یہ خیال صحیح نہیں ہے ، اوپر کی سورت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل پر فرعونی مظالم اور اس کی زیادتیوں کا ذکر تھا۔ اس سورت میں کفار مکہ کے ان مظالم کا ذکر ہے جو وہ مسلمانوں پر کیا کرتے تھے ان مظالم کے متعلق مسلمانوں کو سمجھادیا گیا ہے اور ان کو تسلی دی گئی ہے اور ان کو بتایا کہ دعوت ایمانی کو قبول کر نیوالے ابتلا اور امتحان و آزمائش کیلئے آمادہ رہیں اور یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ ایمانی دعوت کو قبول کر لیناہر قسم کی آزمائشوں اور فتنوں سے سبکدوش ہوجانا ہے نہیں کافرانہ اتدار کے دور میں یہ کہنا کہ ہم دین حق پر ایمان لے آئے اور ہم نے حق کو قبول کرلیا یہ کہنا ہی بہت سے امتحانات کو دعوت دینا ہے۔ آگے اطمینان دلایا کہ یہ کوئی نئی آزمائش نہیں ہے بلکہ پہلی امتوں کو بھی یہ حوادثات پیش آچکے ہیں ان فتنوں سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ ان کا صبر و استقلال اور جواں مردی سے مقابلہ کرنا چاہئے۔
Top