Kashf-ur-Rahman - Yaseen : 70
لِّیُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَیًّا وَّ یَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ
لِّيُنْذِرَ : تاکہ ( آپ) ڈرائین مَنْ : جو كَانَ : ہو حَيًّا : زندہ وَّيَحِقَّ : اور ثابت ہوجائے الْقَوْلُ : بات (حجت) عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : جمع کافر
اس کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ وہ قرآن اس شخص کو ڈرا دے جو صحیح زندگی رکھتا ہو تاکہ کافروں پر حجت ثابت ہوجائے۔
(70) اس قرآن کریم کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ یہ قرآن اس شخص کو ڈرا دے جو زندہ ہو اور صحیح زندگی رکھتا ہو اور تاکہ منکروں پر الزام اور حجت ثابت ہوجائے۔ یعنی قرآن یا پیغمبر کا کام یہ ہے کہ جو شخص زندہ ہو یعنی قلبی زندگی رکھتا ہو اور اس میں حق بات کو قبول کرنے کی صلاحیت ہو اس کو یہ رسول یا یہ قرآن ڈرا دے اس میں تامل کرنے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہو تو اسی کو ڈرانا نافع ہوسکتا ہے ورنہ غافل تو ایسا ہے جیسے مردہ اور میت۔ کافروں پر حجت ثابت ہونے کا یہ مطلب ہے کہ جو لوگ قرآن سن کر نہیں مانتے اور اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے تو ان پر یہ قرآن حجت اور الزام ہے کہ ہدایت ان تک پہنچی مگر انہوں نے قبول نہیں کی۔ لہٰذا ان پر کلمہ عذاب ثابت ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جس میں جان ہو یعنی نیک اثر پکڑتا ہو اس کے فائدے کو اور منکروں پر الزام اتارنے کو۔ آگے توحید کے سلسلے میں حضرت حق تعالیٰ کے بعض احسانات کا ذکر ہے۔
Top