Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 161
وَّ اَخْذِهِمُ الرِّبٰوا وَ قَدْ نُهُوْا عَنْهُ وَ اَكْلِهِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ١ؕ وَ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا
وَّ : اور اَخْذِهِمُ : ان کا لینا الرِّبٰوا : سود وَ : حالانکہ قَدْ نُھُوْا : وہ روک دئیے گئے تھے عَنْهُ : اس سے وَاَ كْلِهِمْ : اور ان کا کھانا اَمْوَالَ : مال (جمع) النَّاسِ : لوگ بِالْبَاطِلِ : ناحق وَاَعْتَدْنَا : اور ہم نے تیار کیا لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے مِنْهُمْ : ان میں سے عَذَابًا : عذاب اَلِيْمًا : دردناک
اور نیز ان کے سود لینے کی وجہ سے حالانکہ ان کو سود لینے کی ممانعت کی جا چکی تھی اور نیز لوگوں کے مال ناجائز طور پر کھا جانے کی وجہ سے اور ہم نے ان میں سے ان لوگوں کے لئے جو کفر پر قائم رہنے والے ہیں درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔3
3 بالآخر یہود کے انہی بڑے بڑے گناہوں کے باعث ہم نے بہت سی وہ پاکیزہ چیزیں جو پہلے سے ان کے لئے حلال تھیں ان پر حرام کردیں یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں ان کی حرمت کا حکم نازل کردیا اور نیز اسی سبب سے وہ چیزیں ان پر حرام ہی رہیں کہ وہ اپنی ناشائستہ حرکات سے باز نہ آتے اور وہ بہت لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکتے تھے یعنی دین میں تحریف کر کے اور کتمان حق کر کے اللہ تعالیٰ کی راہ سے مانع ہوتے تھے اور نیز اس وجہ سے کہ یہ لوگ سود لیا کرتے تھے حالانکہ ان کو اس سود لینے سے توریت میں ممانعت کردی گئی تھی اور نیز اس وجہ سے کہ یہ لوگوں کے مال ناجائز اور غیر مشروع طریقہ پر کھا جاتے تھے اور ہم نے ان میں سے ان لوگوں کے لئے جو کفر پر قائم رہنے والے ہیں درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ ان کے بڑے بڑے جرائم جیسا کہ ظلم کے لفظ سے مفہوم ہوتا ہے اس امر کے موجب ہوئے کہ ان پر شریعت موسوی میں بعض حلال اور لذیذ چیزیں جو پہلے حضرت یعقوب زمانہ میں حلال تھیں اب حرام کردی گئیں اور چونکہ ان کی عادت یہ تھی کہ برے کاموں پر قائم رہتے تھے اور ہمیشہ ان کا ارتکاب کرتے رہتے تھے اس لئے وہ چیزیں ان پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تشریف آوری تک حرام ہی رہیں البتہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں کچھ تبدیلی ہوئی جیسا کہ ان کے الفاظ تیسرے پارے میں گزر چکے ہیں ولا حل لکم بعض الذی حرم علیکم اور آخر میں نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں تمام احکام کو اٹھا یا گیا، جیسا کہ نویں پارے میں ویحل لھم الطیبات و یحرم علیھم الخبائث تمام وہ چیزیں جو لذیذ اور نافع اور پاکیزہ ہیں حلال کی گئیں اور وہ چیزیں جو غیر طیبات اور جسم کو یا روح کو ضرر رساں ہیں وہ امت محمدیہ ﷺ پر حرام کردی گئیں ان یہود پر طیبات کی حرمت عقوبت کا موجب ہیں اور امت محمدیہ ﷺ پر غیر طیبات کی حرمت موجب رحمت و شفقت ہے ہماری اس تقریر سے اور تیسیر میں جو تفصیل ہم نے عرض کی ہے اس سے وہ شبہ دور ہوگیا ہوگا جو عام طور سے لوگ کیا کرتے ہیں۔ وہ شبہ یہ ہے کہ توریت کے بعد جو گناہ یہ لوگ کرتے تھے مثلاً سور کھانا، یا غلط مسئلہ بتا کر رشوت لینا یا کلام الٰہی میں تحریف کرنا وغیرہ تو یہ گناہ حرمت طیبات کا سبب کیسے قرار دیئے جاسکتے ہیں کیونکہ یہ گناہ بعد کے ہیں اور سزا ان سے پہلے کی ہے۔ اسی کا جواب ہے کہ تحریم عام ہے اور بطریق عموم مجاز حددث اور استمرار دونوں کو شامل ہے۔ لہٰذا بعض کا حدوث مسبب ہے اور بعض کا استمرار مسببے، یہاں سابقہ اور لاحقہ دونوں جرائم کی طرف اشارہ ہے، عذاب اخروی کا جاں تک تعلق ہے وہ دونوں حالتوں میں یقینی ہے اوپر عذاباً مبینا فرمایا تھا یہاں عذاباً الیما فرمایا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دنیوی سزائیں عقوبت اخروی سے سبکدوش نہیں کرسکتیں، ہاں ! اگر شریعت محمدیہ ﷺ پر ایمان لے آئیں تو پچھلی خطائیں معاف ہوسکتی ہیں یہود کے جرائم سابقہ اور مستمرہ کی وجہ سے ان پر کون کونسی چیزیں کی گئیں اس کی تفصیل آٹھویں پارہ میں آجائے گی اور کچھ چوتھے پارے میں بھی آچکا ہے کل الطعام کان حلا کو ملاحظہ کرلیا جائے۔ آٹھویں پارے میں بھی طیبات کی حرمت کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا ذلک جزینا ھم ببغھم بعض مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ انہوں نے آپ ہی تحریف کر کے بعض چیزوں کو اپنے اوپر حرام کرلیا تھا ۔ (واللہ اعلم) بہرحال ! سرکشی کے خوگر اور جرائم پیشہ لوگ تھے خود بھی اپنے لئے سختیاں پیدا کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے بھی شریعت سخت کردی۔ وبصدھم عن سبیل اللہ کا ترجمہ ہم نے شاہ ولی اللہ صاحب کی عبارت سے کیا ہے ورنہ بعض لوگوں نے کثیراً کو صد کی قید بنا کر یوں ترجمہ کیا کہ اللہ کی راہ میں بہت رکاوٹ ڈالتے تھے اور بڑے بڑے اٹکائو پیدا کرتے تھے، انبیاء (علیہم السلام) کو قتل کردیا کرتے تھے مطلب میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں ان کا یہ حاشیہ کثیراً پر ہے یعنی اوپر سے سب شرارتیں ان کی جو ذکر کیں بعضی پہلے ہوئیاں اور بعضی پیچھے مجمل یہ کہ گناہ پر دلیر تھے اس واسطے ان کو شریعت سخت رکھی کہ سرکشی ٹوٹے۔ (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب نے جو بعضی پیچھے فرمائیں اس پر جو شبہ وارد ہوتا تھا اس کی تقریر اور جواب ہم نے تسہیل میں دے دیا ہے۔ آیت سے یہ معلوم ہوا ہے کہ ارتکاب جرائم طیبات کی حرمت کا موجب ہیں اس امت میں اگرچہ یہ تو نہیں ہوتا کہ بنی اسرائیل کی طرح بعض چیزیں حرام کردی جائیں ہاں ! یہ ضرور ہے کہ ناشکری اور کفران نعمت سے نعمت سلب ہوجاتی ہے۔ بعض اہل سلوک نے فرمایا ہے کہ ارتکاب محرمات تو بڑی چیز ہے ، ارتکاب مباحات بھی حرمان مناجات کا موجب ہوجاتے ہیں۔ العیاذ باللہ اب آگے ان لوگوں کا بیان ہے جو اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئے اور اسلام کے دامن میں پناہ گزیں ہوگئے ان کو مستثنا فرماتے ہیں اور ان کے لئے اجر عظیم کا وعدہ کرتے ہیں۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top