Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 164
وَ رُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰهُمْ عَلَیْكَ مِنْ قَبْلُ وَ رُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَیْكَ١ؕ وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ
وَرُسُلًا : اور ایسے رسول (جمع) قَدْ قَصَصْنٰهُمْ : ہم نے ان کا احوال سنایا عَلَيْكَ : آپ پر ( آپ سے) مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَرُسُلًا : اور ایسے رسول لَّمْ : نہیں نَقْصُصْهُمْ : ہم نے حال بیان کیا عَلَيْكَ : آپ پر ( آپ کو) وَكَلَّمَ : اور کلام کیا اللّٰهُ : اللہ مُوْسٰى : موسیٰ تَكْلِيْمًا : کلام کرنا (خوب)
اور اسی طرح ہم نے بہت سے ایسے رسولوں کو بھی صاحب وحی بنا کر بھیجا جن کا حال اس سے قبل ہم آپ سے بیان کرچکے ہیں اور ایسے رسولوں کو بھی جن کا ذکر ابھی تک ہم نے آپ سے نہیں کیا اور اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے خاص طور پر گفتگو کی2
2 اے پیغمبر ! ﷺ ہم نے آپ کے پاس ایسی ہی وحی بھیجی ہے جیسے ہم نے حضرت نوح (علیہ السلام) کے پاس بھیجی تھی اور ان نبیوں کے پاس بھیجی تھی جو نوح (علیہ السلام) کے بعد ہوئے ہیں اور جیسا کہ ہم نے ابراہیم اور اسمعیل اور اسحاق اور یعقوب اور یعقوب کی اولاد میں جو نبی ہوئے ہیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) اور ایوب (علیہ السلام) اور یونس (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) کے پاس وحی بھیجی تھی اور اسی طرح ہم نے دائود (علیہ السلام) کو زبور عنایت کی تھی اور اسی طرح ان کے علاوہ بعض اور پیغمبروں کو بھی جن کا ذکر ہم آپ سے کرچکے ہیں صاحب وحی بنا کر بھیجا یعنی سورة انعام میں اور دوسری صورتوں میں ان کا ذکر آیا ہے اور اس طرح ہم نے بعض اور ایسے پیغمبروں کو بھی صاحب وحی بنا کر بھیجا جن کا ذکر ہم نے آپ سے اب تک نہیں کیا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے خاص طور پر کلام فرمایا یعنی بلا واسطہ شرف ہمی کلامی بخشا۔ (تیسیر) وحی اور ایحا اعلام فی خفاء کو کہتے ہیں یعنی کوئی ایسی اطلاع جو پردے میں دی جائے اور سرعت کے ساتھ دی جائے، مطلب یہ ہے کہ یہ پیغمبر کوئی انوکھا پیغمبر نہیں ہے جو آسمان پر چڑھ کر تمہارے لئے کوئی کتاب یا کوئی خط لے کر آئے بلکہ جس طرح اور پیغمبروں پر وحی کے ذریعہ ہمارے فرما پہنونچتے رہے اسی طرح اس پیغمبر کی جانب بھی ہم وحی کے ذریعہ احکام بھیجتے ہیں اور جب اور انبیاء کے ساتھ ہم نے ایسا طریقہ نہیں برتا تو اس کے ساتھ یہ انوکھا طریقہ کیوں اختیار کریں اس کے بعد انبیاء کے نام لئے جن کی نبوت مسلمہ فریقین تھی، مثلاً نوح (علیہ السلام) اور نوح (علیہ السلام) کے بعد جو پیغمبر ہوئے جیسے ہود عاد اور صالح اور شعیب (علیہ السلام) وغیرہ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور اسمعیل (علیہ السلام) اور اسحاق (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد میں سے جو لوگ پیغمبر ہوئے ہیں انکا ذکر فرمایا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ایوب (علیہ السلام) اور یونس (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا اور دائود (علیہ السلام) کو چونکہ مستقل کتاب دی تھی اس کا ذکر فرمایا چونکہ یہ تمام پیغمبر وہ ہیں جن کہ یہود بھی پیغمبر مانتے تھے اس لئے ان کی وحی سے استدلال فرمایا کہ جس طرح ہم نے ان لوگوں کو وحی بھیجی تھی اور یہ لوگ آسمان پر چڑھ کر کتابیں نہیں لائے تھے۔ اسی طرح ہم نے نبی آخر الزمان ﷺ پر بھی وحی بھیجی ہے ان سے یہ مطالبہ کیوں کیا جاتا ہے ہ آسمان پر جا کر وہاں سے کوء یکتاب لا کردو حضرت دائود کی زبور کے متعلق قرطبی نے کہا ہے کہ اس میں ایک سو پچاس سورتیں تھیں اور ان سورتوں میں احکام نہیں تھے بلکہ پندو نصائح تھے اور دعائیں تھیں۔ حضرت دائود (علیہ السلام) اس کتاب کو نہایت خوش الحالی کے ساتھ پڑھا کترے تھے اور آپ کے ساتھ بنی اسرائیل کے علماء ہوتے تھے اور بعض موقعہ پر پرندے اور جناب وغیرہ بھی جمع ہوجاتے تھے۔ زبور مزبور کے معنی ہیں جس کے معنی ہیں مکتوب ان انبیاء کا نام ذکر فرمانے کے بعد اجمالاً تمام انبیاء کی طرف اشارہ کیا۔ جن کا ذکر اب تک آچکا ہے اور جن کا ذکر اب تک نہیں آیا اور ان کی صحیح تعداد اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے اور ان میں سے رسولوں کی تعداد تین سو تیرہ ہے اور کتابوں کی تعداد ایک سو چار ہے۔ (واللہ اعلم) اس سلسلہ میں بعض روایات ضعیف ہیں اور بعض لاباس بہ کے درجے کی ہیں اور بعض ایسی ہیں کہ ابن کثیر نے ان پر کوئی تنقید نہیں کی۔ حضرت جابر سے جو روایت بزار نے نقل کی ہے اس میں حضور ﷺ کی یہ الفاظ ہیں کہ میں ہزار یا ہزار سے زیادہ انبیاء کا خاتم ہوں۔ اس روایت پر بھی ابن کثیر نے کوئی تنقید نہیں کی۔ (واللہ اعلم) بلاواسطہ حضرت حق تعالیٰ کا کلام کرنا یہ وحی کا انتہائی بلند مرتبہ ہے۔ عام قراء نے وکلم اللہ یعنی اللہ کے رفع کے ساتھ پڑھا ہے مگر بعض نے اللہ کے نصب کے ساتھ پڑھا ہے۔ بعض معتزلہ کا قصہ مشہور ہے کہ انہوں نے کسی اہل سنت کے عالم سے کہا کہ اللہ تعالیٰ کسی سے کلام نہیں کرتا اور اس آیت کو اللہ کے نصب کے ساتھ پڑھا جس کا مطلب یہ تھا کہ موسیٰ نے اللہ سے کلام کیا اس تحریف کو سن کر اس اہل سنت عالم نے فرمایا ارے کم بخت وکلم ربہ میں کیا پڑھے گا یہ سن کر وہ معتزل مبہوت ہوگیا کلام کی نوعیت خواہ کچھ ہو لیکن قرآن کریم کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو شرف ہم کلامی سے نوازا۔ اگرچہ کلام تو سب ہی انبیاء سے ہوتا ہے لیکن حضرت موسیٰ کو یہ شرف بلا واسطہ میسر ہوا۔ اب اسی سلسلہ میں انبیاء (علیہم السلام) کے بھیجنے کا فلسفہ بیان فرماتے ہیں اور نبی کریم ﷺ کے رسول ہونے کی شہادت دیتے ہیں اور ان شہادت کے بعد منکرین رسالت پر توبیخ فرماتے ہیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top