Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 169
اِلَّا طَرِیْقَ جَهَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا١ؕ وَ كَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرًا
اِلَّا : مگر طَرِيْقَ : راستہ جَهَنَّمَ : جہنم خٰلِدِيْنَ : رہیں گے فِيْهَآ : اس میں اَبَدًا : ہمیشہ وَكَانَ : اور ہے ذٰلِكَ : یہ عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر يَسِيْرًا : آسان
اور نہ ان کو کوئی راہ دکھائے گا سوائے دوزخ کی راہ کے وہ لوگ اس دوزخ میں ہمیشہ ہمیشہ پڑے رہیں گے اور ان کو یہ سزا دینا اللہ تعالیٰ پر بہت آسان ہے3
3 یقین جانو ! ان دلائل واضحہ کے بعد بھی جو لوگ دین حق کے منکر رہے اور دوسروں کو بھی اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکتے رہے اور دوسروں کے لئے بھی مانع ہوئے تو یہ لوگ ایسی انتہائی گمراہی میں جا پڑے جو راہ حق سے بہت دور ہے بلاشبہ جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور کافرانہ روش پر چلے اور کتمان حق کر کے دوسروں پر ظلم کیا اور راہ حق سے مانع بن کر دوسروں کو نقصان پہنچایا تو اللہ تعالیٰ ان کو ہرگز نہیں بخشے گا اور کبھی مغفرت نہیں فرمائے گا اور نہ آخرت میں ان کو سوائے دوزخ کی راہ کے اور کوئی راہ دکھائے گا اس دوزخ میں ان کی حالت یہ ہوگی کہ یہ لوگ اس میں ہمیشہ ہمیشہ پڑے رہیں گے اور ان کو ہمیشہ کے لئے جہنم میں ڈال دینا اللہ تعالیٰ پر بہت آسان اور سہل ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ سزا ایک معمولی بات ہے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کی نبوت پر جو دلائل قاطعہ بیان کئے گئے ہیں ان کے باوجود بھی جو شخص ان کی نبوت اور ان کے لائے ہوئے مذہب سے کفر کرے گا اور امر حق کے قبول کرنے سے انکار کرے گا اور نہ صرف انکار بلکہ دوسروں کو بھی اس امر حق کے قبول کرنے سے روکے گا خواہ کتمان حق کے ذریعہ روکے جیسا کہ یہود حضور ﷺ کی نعت کو چھپاتے ہیں اور حضور ﷺ کے متعلق کہتے ہیں کہ ہم ان کو نہیں پہچانتے یا کوئی اور ذریعہ اختیار کرے۔ جیسے منافق کہ چپکے چپکے لوگوں کو شکو ک و شبہات میں مبتلا کرتے رہتے ہیں تو ایسے لوگ انتہائی گمراہی میں جا پڑے جو گمراہی راہ حق سے بہت دور ہے دوسری آیت میں اخروی سزا کا بیان ہے دنیا میں تو یہ لوگ انتہائی گمراہی میں مبتلا ہیں اور آخرت میں ان لوگوں کی جو امر حق کے منکر ہیں اور کتمان حق سے دوسروں کو ہی نقصان پہنچا رہے ہیں اور راہ حق تلاش کرنے والوں پر ظلم کر رہے ہیں کہ ان کو بہکا کر راہ حق سے ہٹا رہے ہیں۔ تو ان کو اللہ تعالیٰ کبھی نہیں بخشے گا اور سوائے دوزخ کی راہ اور کوئی راہ ان کو نہیں دکھائے گا یعنی جنت میں جانا تو کیسا جنت کا راستہ بھی دیکھنا نصیب نہ ہوگا بلکہ دوزخ کی جانب ان کی رہنمائی کی جائے گی اور یہ اس دوزخ میں ہمیشہ ہمیشہ پڑے رہیں گے۔ آخر میں فرمایا ان کے ساتھ ایسا سلوک کرنا اللہ تعالیٰ پر کچھ مشکل نہیں بلکہ اس پر بہت آسان ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کوئی کام مشکل نہیں ہے۔ انما امرہ اذا ارادشیئاً ان یقول لہ کن فیکون صد کے معنی بعض نے لازم اور بعض نے متعدی کئے ہیں ہم نے دوسری شکل اختیار کی ہے ہو سکتاے کہ صدعن سبیل اللہ کے یہ معنی ہوں کہ اللہ کی راہ کو اختیار کرنے سے اٹکے اور روکے واللہ اعلم۔ اب آگے بنی نع انسان کو عام خطاب ہے اور نبی کریم ﷺ کا عام اعلان ہے اور لوگوں کو ان پر ایمان لانے کی عام دعوت ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top