Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 175
فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ اعْتَصَمُوْا بِهٖ فَسَیُدْخِلُهُمْ فِیْ رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَ فَضْلٍ١ۙ وَّ یَهْدِیْهِمْ اِلَیْهِ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاؕ
فَاَمَّا : پس الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَاعْتَصَمُوْا : اور مضبوط پکڑا بِهٖ : اس کو فَسَيُدْخِلُهُمْ : وہ انہیں عنقریب داخل کرے گا فِيْ رَحْمَةٍ : رحمت میں مِّنْهُ : اس سے (اپنی) وَفَضْلٍ : اور فضل وَّ : اور يَهْدِيْهِمْ : انہیں ہدایت دے گا اِلَيْهِ : اپنی طرف صِرَاطًا : راستہ مُّسْتَقِيْمًا : سیدھا
سو اب جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے دین کو مضبوط پکڑا تو اللہ تعالیٰ عنقریب ایسے لوگوں کو اپنی رحمت اور فضل میں داخل کرے گا اور انہیں اپنے تک پہونچنے کی سیدھی راہ دکھا دے گا۔2
2 اے انسانو ! بلاشبہ تمہارے پروردگار کی جانب سے تمہارے پاس ایک بڑی دلیل آچکی ہے یعنی محمد رسول اللہ ﷺ جن کی ذات گرامی اپنی صداقت کی خود ہی دلیل ہے اور ہم نے تمہاری جانب ایک صاف وصریح نور بھیجا ہے یعنی قرآن شریف جو گمراہی کی ہر تاریکی سے بچاتا ہے پھر اب جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے دین کو جو اسلام ہے مضبوط پکڑا تو ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ عنقریب اپنی رحمت کے سایہ میں داخل رے گا اور دامان فضل میں جگہ دے گا اور اپنے تک پہونچنے کا ان کو سیدھا راستہ دکھائے گا۔ (تیسیر) نبی کریم ﷺ کو برہان فرمایا اور یہ واقعہ ہے کہ آپ کی ذات اقدس اور آپ کے اخلاف کریمانہ اور آپ کے معجزات اور آپ پر کتاب کا نزول یہ سب چیزیں آپ کی نبوت اور آپ کی رسالت کے کھلے کھلے دلائل ہیں جن کو دیکھنے کے بعد کسی اور دلیل کی احتیاج باقی نہیں رہتی تو یوں سمجھنا چاہئے کہ آپ کی ذات خود ہی ایک مجسم دلیل ہے جس طرح آفتاب اپنی آپ ہی دلیل ہے اسی طرح حضور ﷺ کے وجود باوجود کو دلیل اور قرآن کریم کو نور فرمایا۔ روشنی کا کام لوگوں کو راستہ دکھانا ہوتا ہے۔ اندھیرے میں روشنی نہ ہو تو انسان ایک قدم نہیں چل سکتا ۔ اسی طرح کفر و شرک کی اندھیریاں انسان کو گھیرے ہوئی ہیں ان ظلمات اور تاریکیوں سے قرآن کریم ہی کے ذریعہ نجات حاصل کی جاسکتی ہے اور انسان کفر و شرک کے گڑھوں سے بچ سکتا ہے اس لئے قرآن کریم کو نور مبین فرمایا۔ امنوا باللہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی تنزیہ کا اعتقاد رکھیں۔ اعتصام کو ہم بیان کرچکے ہیں کسی چیز کے مضبوط پکڑنے کو کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا مضبوط پکڑنا یہ کہ اس کے دین کو جو اسلام ہے مضبوط پکڑیں یا یہ کہ قرآن کریم کو مضبوط پکڑیں۔ بہ کا مرجع قرآن کریم بھی ہوسکتا ہے اسلام کو مضبوط پکڑنے کا مطلب یہ ہے کہ رسول اور قرآن کریم کی تصدیق کریں رحمت سے مراد جنت ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا فضل سے مراد جنت کے علاوہ دوسری نعمتیں ہیں یا دیدار بھی ہے۔ الیہ کی ضمیر کے مرجع میں بھی کئی قول ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس جیسا کہ ہم نے اختیار کیا ہے یا رحمت یا فضل یا دونوں یا قرآن بہرحال خلاصہ یہ ہے کہ تمام بنی نع انسان کو تنبیہ کی گئی ہے کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے پیغمبر اور قرآن پہنچ گیا ہے لہٰذا دلیل اور روشنی میسر آجانے کے بعد جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ صحیح اعتقاد رکھے گا اور خدا پر پوری طرح بھروسہ کرے گا اور اس کے دین کو مضبوط پکڑے گا تو اس کے لئے آخرت میں جنت کا داخلہ ہوگا اور جنت کے علاوہ اور بھی سلوک ہوگا اور دیدار الٰہی کا شرف ہوگا اور ایک ایسی سیدھی راہ کی رہنمائی میسر ہوگی جو حضرت حق تعالیٰ تک پہونچتی ہے اور وہ راہ امتثال امر اللہ کی راہ ہے یا طریقہ رضا ہے بہرحال ! ایسی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے گا جو راہ اس کو پسند ہے اور جس پر چل کر بندہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوگا۔ اور اگر یہ شبہ کیا جائے کہ امتثال امر اور طریقہ رضا تو خود ایمان اور اعمال صالحہ کا نام ہے پھر اس کو سبب کیوں فرمایا تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایمان اور اعمال صالحہ سبب ہیں ثبات علی الطاعت اور توفیق طاعت کے جیسا کہ عام قاعدہ ہے کہ ہر عمل نیک دوسرے نیک عمل کی توفیق پیدا کرتا ہے پس اعمال صالحہ مزید نیک اعمال کے موجب ہوں گے اور را ہ راست پر ثابت رہنے میں ممد و معاون ہوں گے اور اسی آیت سے یہ بھی مفہوم سمجھ میں آگیا ہوگا کہ جو لوگ ایمان باللہ اور اعتصام باللہ کے منکر ہوں گے وہ ان ثمرات اور فوائد سے محروم رہیں گے اور ان کو یہ وعدہ شامل نہ ہوگا۔ چناچہ حقوق مالیہ کی بحث اور ترکہ کی تقسیم وغیرہ کا ذکر سورت کی ابتداء میں گزر چکا ہے ۔ اب آخر میں پھر ترکہ کے بعض مسائل پر اس سورت کو ختم کیا جاتا ہے تاکہ باقی مسائل کی تکمیل ہوجائے اور سورت کے شروع میں جس مقصد کا اظہار کیا گیا تھا آخر میں پھر اس پر توجہ دلائی جائے۔ شان نزول کے متعلق عام طور سے یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ بیمار تھے نبی کریم ﷺ ان کے ہاں تشریف لے گئے اس وقت جابر کے ہوش و حواس صحیح نہ تھے حضور ﷺ نے وضو کیا اور کچھ پانی ان کے منھ پر چھڑکا اور جب جابر کو ہوش ہوا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرے کوئی اولاد نہیں ہے تو میرا ترکہ کس طرح تقسیم ہوگا اس پر یہ آخری آیت نازل ہوئی بعض روایات میں حضرت عمر کا بھی یہی سوال منقول ہے کہ انہوں ں نے دریافت کیا یا رسول اللہ ﷺ کلالہ کی میراث کس طرح تقسیم ہوگی تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت عمر ؓ فرمایا کرتے تھے کہ میں بکثرت حضور ﷺ سے کلالہ کی میراث کے متعلق سوال کیا کرتا تھا ایک دن حضور ﷺ نے میرے سینہ میں اپنی انگلی چبھو کر فرمایا کیا عمر ! تیرے لئے سورة نساء کی آخری آیت کافی نہیں ہے۔ بہرحال ! شان نزول خواہ کچھ ہو کلالہ کی میراث کا ذکر فرماتے ہیں کلالہ کو ہم بتا چکے ہیں کہ جس کے اصول و فروع نہ ہوں اس کو کلالہ کہتے ہیں یعنی نہ ماں باپ ہوں اور نہ بیٹا بیٹی ہوں اس کی میراث کی تقسیم کو بتاتے ہیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top