Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 28
یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْكُمْ١ۚ وَ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا
يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يُّخَفِّفَ : ہلکا کردے عَنْكُمْ : تم سے وَخُلِقَ : اور پیدا کیا گیا الْاِنْسَانُ : انسان ضَعِيْفًا : کمزور
اللہ تعالیٰ تم پر سے بوجھ کو ہلکا کرنا چاہتا ہے اور انسان طبعاً کمزور پیدا کیا گیا ہے3
3) اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہے کہ وہ تم پر آسانی اور تخفیف فرمائے اور تم پر سے بوجھ کو ہلکا کردے کیونکہ انسان کو طبعاً کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ انسان اور مکلفین کے مقابلہ میں چونکہ طبعاً کمزور بنایا گیا ہے اور احکام شاقہ کا تحمل نہیں کرسکتا اس لئے اللہ تعالیٰ تم پر آسانی کرنا چاہتا ہے اور یہ اس کے علم و حکمت اور رحمت و شفقت کا کمال ہے اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ سابقہ امم پر جو احکام مقررکئے تھے اس میں تمہاری حالت کا لحاظ کرتے ہوئے تخفیف منظور ہے اور ہم جانتے ہیں کہ تم پر سے اس بوجھ کو ہلکا کردیں کیونکہ اول تو انسان ضعیف الخلقت ہے پھر آخری امت اپنے قوی اور ہمت کے اعتبار سے اور بھی زیادہ کزور ہے اور جس قدر قیامت کا زمانہ قریب آتا جائے گا۔ یہ ضعف اور کمزوری زیادہ ہوتی جائے گی۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کو تم پر تخفیف منظور ہے اور یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ پہلی امتوں سے اس امت میں احکام کی آسانی زیادہ ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی شرع میں کسی چیز کی تنگی نہیں کی کہ کوئی حلال کو چھوڑے اور حرام کو دوڑے۔ (موضح القرآن) اوپر کی آیتوں میں حرمت و حلت کے بعض مخصوص احکام تھے۔ مثلاً یتیموں کا مال نہ کھائو، یتیموں پر ظلم نہ کرو۔ وارثوں کی میراث نہ مارو۔ اب آگے ان احکام کی تعمیم فرماتے ہیں۔ (تسہیل)
Top