Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 40
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ١ۚ وَ اِنْ تَكُ حَسَنَةً یُّضٰعِفْهَا وَ یُؤْتِ مِنْ لَّدُنْهُ اَجْرًا عَظِیْمًا
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَظْلِمُ : ظلم نہیں کرتا مِثْقَالَ : برابر ذَرَّةٍ : ذرہ وَاِنْ : اور اگر تَكُ : ہو حَسَنَةً : کوئی نیکی يُّضٰعِفْھَا : اس کو کئی گنا کرتا ہے وَيُؤْتِ : اور دیتا ہے مِنْ لَّدُنْهُ : اپنے پاس سے اَجْرًا : ثواب عَظِيْمًا : بڑا
یقین مانو اللہ تعالیٰ کسی شخص پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا اور اگر ایک چھوٹی سی نیکی بھی ہوئی تو اللہ تعالیٰ اس کو کئی گنا بڑھا دے گا اور اپنے پاس سے مزید اجر عظیم عطا فرمائے گا۔2
2 اور ان کا کیا بگڑ جاتا اور ان پر کو سنی آفت نازل ہوجاتی اگر یہ لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آتے اور یوم آخرت کے واقع ہونے کا اعتقاد رکھتے اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ خیرات کیا کرتے اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی حالت کو خوب جانتا ہے۔ یقین جانو ! کہ اللہ تعالیٰ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نیں کرے گا بلکہ وہ تو ایسا کریم ہے کہ اگر ایک چھوٹی سی نیکی ہوگی تو اپنی مہربانی سے اس کو کئی گنا کر کے اس کا ثواب عنایت کرے گا اور اس ثواب کے علاوہ اپنے پاس سے بطور اپنے انعام کے اور اجر عظیم عطا فرمائے گا یعنی نیکی کو بڑھا کر ثواب ملے اور اپنے پاس سے اور مزید ثواب عظیم عطا فرمائے۔ (تیسیر) اللہ پر ایمان اور آخرت پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ کو تسلیم کرلیتے اور خدا کے دیئے ہوئے مال میں سے کچھ خیرات کرتے رہتے تو ان کا کیا نقصا نہو جاتا مگر محض اپنی ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے اسلامی احکام کو قبول نہیں کرتے اور اپنے مالوں میں بخیل بنے بیٹھے ہیں اسلام تو ایک ایسا مذہب ہے کہ ہر اعتبار سے مفید ہی مفید ہے۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ تو ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا نہ کسی کے ثواب کو کم کرتا ہے اور نہ کسی کو بلاوجہ عذاب کرتا ہے بلکہ اس کی شان تو ایسی ہے کہ چھوٹی سی نیکی کو بھی کم از کم دس گناہ کر کے اس کا ثواب دیتا ہے اور بلا معاوضہ جو کچھ اپنے پاس سے محض اپنے فضل سے بطور انعام دیتا ہے اس کا تو ٹھکانا ہی کیا ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں ینی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا کسی طرح نقصان دہ نہیں آخرت کا ثواب بیشمار ہے دنیا میں بھی عوض پاتا ہے اس پر رسول خدا نے قسم کھائی ہے۔ (موضح القرآن) ابو دائود طیالسی نے حضرت انس سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم نہیں کرتا کسی مئومن پر جو وہ نیکی کرتا ہے اس کا بدلہ اس کو دنیا میں رزق دیتا ہے اور آخرت میں اس کا صلہ عطا فرماتا ہے اور کافر کو دنیا میں کھلاتا ہے لیکن قیامت کے دن اس کی کوئی نیکی نہ ہوگی۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں۔ جھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ بندئہ مومن کو ایک نیکی کے بدلے میں ایک لاکھ نیکیاں دیتا ہے ابو عثمان کہتے ہیں کہ میں حج یا عمرے کو گیا تھا تو میں نے حضرت ابوہریرہ سے ملاقات کر کے ان سے اس روایت کو دریافت کیا تو انہوں نے اس کی تصدیقف کی اور قسم کھا کر فرمایا کہ میں نے رسول خدا ﷺ سے خود سنا ہے۔ اس واقعہ کو امام احمد اور ابن ابی حاتم نے نقل کیا ہے ۔ اب آگے تتمہ کے طور پر قیامت میں ان منکرین کا جو حشر ہونے والا ہے اس کا بیان فرماتے ہیں اور چونکہ ایمان باللہ رسول پر ایمان لانے کو مستلزم ہے اس لئے نبی کریم ﷺ کا ذکر بھی صراحتہ مذکور ہے۔ (تسہیل)
Top