Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 42
یَوْمَئِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ عَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُسَوّٰى بِهِمُ الْاَرْضُ١ؕ وَ لَا یَكْتُمُوْنَ اللّٰهَ حَدِیْثًا۠   ۧ
يَوْمَئِذٍ : اس دن يَّوَدُّ : آرزو کریں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا وَعَصَوُا : اور نافرمانی کی الرَّسُوْلَ : رسول لَوْ تُسَوّٰى : کاش برابر کردی جائے بِهِمُ : ان پر الْاَرْضُ : زمین وَلَا : اور نہ يَكْتُمُوْنَ : چھپائیں گے اللّٰهَ : اللہ حَدِيْثًا : کوئی بات
اس دن وہ لوگ جنہوں نے دین حق کا انکار کیا تھا اور رسول کی نافرمانی کی تھی یوں آرزو کریں گے کاش زمین پھٹ جائے اور وہ سما جائیں اور وہ اللہ تعالیٰ سے اس دن کوئی بات چھپا نہ سکیں گے ۔1
1 بھلا اس وقت ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جب ہم ہر ایک امت میں سے ایک ایک گواہ یعنی احوال بتانے والا میدان حشر میں طلب کریں گے اور اے پیغمبر ﷺ آپ کو ان لوگوں پر یعنی آپ کی امت پر گواہی دینے اور ان کے احوال بتانے کی غرض سے طلب کریں گے۔ اس دن ان لوگوں کا جنہوں نے دنیا میں کفر کیا ہوگا اور اللہ کے رسول کا کہنا نہ مانا ہوگا یہ حال ہوگا کہ وہ اس اس بات کی تمنا اور آرزو کریں گے کہ کاش ! ان پر زمین پٹ جاتی اور وہ اس میں سما جاتے اور ان پر زمین برابر کردی جاتی اور وہ زمین کے پیوند ہوجاتے اور وہ اللہ تعالیٰ سے کوئی بات پوشیدہ نہ رکھ سکیں گے۔ کیونکہ معتبر گواہوں کی شہادت کے بعد اس کے سوا چارہ بھی کیا ہے کہ اپنے جرائم کا خود ہی اقرار کریں (تیسیر) قیامت کے دن جس طرح تمام امتوں سے یہ دریافت کیا جائیگا کہ تم نے اپنے اپنے پیغمبروں کی دعوت کا کیا جواب دیا تھا اسی طرح پیغمبروں کو بھی بلا کر ان کی امت کے متعلق دریافت کیا جائے گا کہ تمہاری امتوں نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا اسی کو شہادت کہا گیا ہے تاکہ مجرموں پر فرد جرم قائم کی جاسکے اس شہادت کی تفصیل ہم دوسرے پارے میں عرض کرچکے ہیں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پیغمبروں کے ساتھ ان کی امت کے بھی بعض مخلفین کا بیان لیا جائے۔ اسی سلسلے میں نبی کریم ﷺ سے بھی اپنی امت کے احوال دریافت کئے جائیں گے۔ یہاں امت سے مراد حضور ﷺ کی امت دعوت ہے۔ حضرت سعید بن مسیب کا ایک قول قرطبی نے نقل کیا ہے کہ آپ ﷺ کی تمام امت ہر روز صبح شام آپ کے روبرو پیش کی جاتی ہے اس لئے آپ ان کی علامات سے قیامت کے دن ان کو پہچان لیں گے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کو آپ ﷺ نے حکم دیا کہ اے عبداللہ سورة نساء سنائو انہوں نے پڑھنا شروع کیا جب اس آیت پر پہونچے تو کہا عبداللہ بس کرو۔ عبداللہ ابن مسعود نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ سے اس قدر آنسو بہہ رہے تھے کہ رخسار مبارک اور قریش مبارک سب تر تھی اس موقع پر آپ نے فرمایا یا رب شھدت علی من انابین اظھرھم فکیف بمن لم ارہ یعنی اے رب میں ان پرتو شہادت دے سکتا ہوں جن میں میں موجود ہوں لیکن جن کو میں نے نہیں دیکھا ان پر شہادت کیوں کر دوں گا۔ (ابن ابی حاتم) حضرت سعید بن مسیب کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ میں سب کو شناخت کرلیں گے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امت اجابت کی طرح امت دعوت پر بھی کوئی خاص علامت ہو۔ امت اجابت کی شناخت کا ذکر تو احادیث میں آتا ہے کہ آثار وضو سے پہچانے جائیں گی اسی طرح ہوسکتا ہے کہ امت اجابت پر بھی کوئی علامت لگا دی جائے۔ دوسری آیت میں خود ہی اس وقت کی حالت کا جواب دیا ہے کہ اس دن کا فر اور رسول ﷺ کے نافرمان زمین کا پیوند بننے کی تمنا کرتے ہوں گے یعنی مرجائیں اور زمین میں دفن ہوجائیں۔ جیسا کہ قتادہ اور ابو عبیدہ نے کہا ہے اور بعضوں نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہم قبروں سے اٹھائے نہ جاتے کلبی نے کہا جب جانوروں کو حکم دیا جائے گا کہ مٹی ہو جائو اس وقت کافر یہ تمنا کریں گے کہ ہم بھی مٹی ہوجائے۔ بات نہ چھپانے کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ کسی وقت جھوٹ بھی بولیں جیسے عذاب کو دیکھ کر کہیں گے واللہ ربنا ماکنا مشرکین لیکن آخر میں اپنے کفر کا اعتراف کریں گے اور کوئی بات حضرت حق سے چھپا نہ سکیں گے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی ہر امت اور عہد کے لوگوں کا احوال اس وقت کے پیغمبر سے اور معتبر نیک بختوں سے بیان کروائیں گے منکروں کا انکار اور اطاعت والوں کی اطاعت بیان ہوگی تب منکر آرزو کریں گے کہ ہم انسان نہ ہوتے مٹی میں مل کر خاک ہوجاتے۔ (موضح القرآن) شاہ صاحب نے جو کچھ فرمایا ہے اس کے بعد شناخت اور عدم شناخت کی کوئی بحث باقی نہیں رہتی۔ اور نبی کریم ﷺ نے آیت ان تعذبھم فانھم عبادک کی تلاوت کرتے وقت جو کچھ فرمایا تھا وہ انشاء اللہ سورة مائدہ کے آخر میں عرض کیا جائیگا چونکہ اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم ہوا تھا اور عبادت میں سب سے اہم نماز ہے اس لئے نماز اور اس کے متعلق بعض مسائل کا ذکر فرمایا اور یہ واقعہ ہے کہ اگر نماز کو اس کی تمام رعایتوں کے ساتھ ادا کیا جائے تو وہ بیشمار اخلاقی امراض کا علاج ہے اور بیشمار مفاسد سے وہ نماز روکنے والی ہے۔ اس لئے درمیان میں نماز کا ذکر کردیا گیا تاکہ جن امراض کا اوپر ذکر کیا گیا تھا خواہ وہ حقوق الہیہ ہوں یا حق العباد، ان کا علاج بھی معلوم ہوجائے اور ہم یہ بات اس سورت کی تمہید میں عرض کرچکے تھے کہ جنگ بدر کے بعد اسلام کی ترقی کا ایک خاص دور شروع ہوچکا تھا اس کے بعد غزوہ احد کے باعث نئی نئی ضرورتیں پیش آگئی تھیں اور نئے نئے سوال سامنے آگئے تھے نیز تجارت اور جہاد کی وجہ سے مختلف مقامات میں سفر کی ضرورت بھی پیش آتی تھی اس لئے اس سورت میں ان تمام حالات کے پیش نظر مختلف مسائل مذکور ہوئے ہیں چناچہ نماز کے ساتھ تمیم کا ذکر فرمانا ان ہی ضروریات کو پورا کرنا ہے جو مسلمانوں کو بعض غزوات میں پیش آئی تھیں۔ (تسہیل)
Top