Kashf-ur-Rahman - At-Tahrim : 2
قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ اَیْمَانِكُمْ١ۚ وَ اللّٰهُ مَوْلٰىكُمْ١ۚ وَ هُوَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ
قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ : تحقیق فرض کیا اللہ نے لَكُمْ : تمہارے لیے تَحِلَّةَ : کھولنا اَيْمَانِكُمْ : تمہاری قسموں کا وَاللّٰهُ مَوْلٰىكُمْ : اور اللہ تعالیٰ مولا ہے تمہارا وَهُوَ الْعَلِيْمُ : اور وہ علم والا ہے الْحَكِيْمُ : حکمت والا ہے
بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کے لئے اپنی قسموں کے کھول دینے کا طریقہ مقرر فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ نے تمہارا کارساز ہے اور وہ بڑے علم والا بڑی حکمت والا ہے۔
(2) بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کے لئے اپنی قسموں کا کھول دینا مقرر کردیا ہے اور اپنی قسموں کے کھول دینے کا طریقہ مقرر فرمادیا ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارا کارساز ہے اور وہ بڑے علم بڑی حکمت والا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حضرت نے ایک حرم اپنی موقوف کردی یا ایک بی بی کے ہاں سے شہد پینا موقوف کیا یا اور بیویوں کی خاطر سے اسی پر اللہ نے یہ فرمایا اور قسم اتار ڈالنا کفارہ دینا اب جو کوئی اپنے مال کو کہے یہ مجھ پر حرام ہے تو قسم ہوگئی کفارہ دے تو پھر اس کو کام میں لادے کھانا یا کپڑا یا لونڈی۔ خلاصہ : یہ کہ نبی کریم ﷺ عصر کی نماز کے بعد تھوڑی تھوڑی دیر کے لئے تمام ازواج مطہرات کے مکان میں تشریف لے جایا کرتے تھے۔ حضرت زینب ؓ اس وقت آپ ﷺ کو شہد کا شربت بنا کر پلایا کرتی تھیں اس لئے حضرت زینب ؓ کے ہاں قدرتی طور پر کچھ دیر لگتی تھی یہ زینب ؓ کے گھر کی تاخیر حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ پر گراں گزرتی تھی اول تو نسوانی رقابت اور باہمی تنافس کا اثر کہ اس کے ہاں اتنی دیر کیوں ٹھہرے۔ نیز نبی کریم ﷺ سے محبت اور عقیدت کا تقاضہ ۔ بہرحال ان دونوں عورتوں نے آپس کے مشورے سے ایک بات بنائی کہ جب حضور تشریف لائیں تو ہم میں سے ہر ایک یوں کہے کہ آپ کے منہ سے مغافیر یعنی کندلر کے گوند کی بو آتی ہے چناچہ عورتوں کی یہ ترکیب کارگر ہوئی۔ جب آپ سے حفصہ ؓ نے کہا تو آپ نے انکار کیا کہ میں نے مغافیر نہیں پیا لیککن حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آرہی ہے آپ نے پھر انکار کیا اور فرمایا میں نے شہد پیا ہے حضرت عائشہ ؓ نے کہا مکھی شہد کی مغافیر پر بیٹھی ہوگی اس لئے شہد میں مغافیر کی بو ہوگئی آپ نے قسم کھالی کہ میں آئندہ شہد نہیں پیوں گا آپ نے حفصہ ؓ اور عائشہ ؓ سے کہا کہ زینب ؓ سے نہ کہنا ورنہ وہ رنجیدہ ہوگی۔ ایک واقعہ اور اسی طرح کا حضرت حفصہ ؓ کو پیش آیا نبی کریم ﷺ حضرت حفصہ ؓ کے ہاں تھے انہوں نے اپنے باپ عمر ؓ سے ملنے کی اجازت چاہی آپ نے ان کو ان کے باپ کے ہاں بھیج دیا بعد میں آپ کی مشہور کنیز ماریہ قبطیہ جن سے حضرت ابراہیم پیدا ہوئے تھے یہ ماریہ قبیطیہ حاضر ہوگئیں حضرت نے ان سے قربت فرمائی تھوڑی دیر میں حضرت حفصہ ؓ آگئیں انہوں نے دیکھکا مکان کے کواڑ بند ہیں وہ دروازے کے پاس بیٹھ کر رونے لگیں جب کواڑ کھلے تو آپ ﷺ نے دیکھا حضرت حفصہ رو رہی ہیں اور شکوہ کررہی ہیں آپ ﷺ نے حفصہ ؓ کو راضی کرنے کی غرض سے قسم کھالی کہ میں آئندہ ماریہ قبطیہ سے کوئی تعلق نہ رکھوں گا اور حضرت حفصہ ؓ کو تاکید کردی کہ اس قسم کی کسی کو خبر نہ کرنا اسی طرح کی شاید کچھ اور باتیں بھی ہوں جن کو آپ نے پوشیدہ طور پر کسی بیوی سے کہا ہو اور دوسروں سے کہنے کو منع کیا ہو مگر عورت کے پیٹ میں بات کہاں پچتی ہے افشاء راز کردیا گیا۔ بہرحال ان آیتوں میں بہت سے مسائل کا انکشاف ہوگیا اگر کسی حلال چیز کو کوئی حرام کرے اگرچہ اعتقاداً اس کی حرمت کا قائل نہ ہو مگر اس کا استعمال حرام کرے تو اس کو چاہیے کہ قسم کا کفارہ دیدے اور اسے حلال کرلے ایسا کرنا معمولی بات ہے اور علما اس کو خلاف اولیٰ کہتے ہیں لیکن نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس چونکہ خلاف اولیٰ کے ارتکاب سے بھی ارفع واعلیٰ ہے۔ اس لئے فرمایا اللہ تعالیٰ غفورالرحیم ہے اور قسم کو کھولنے کا حکم دیا اور فرمایا اللہ تعالیٰ تمہارا مالک ہے اور وہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ یعنی تمہاری مصالح سے خوب واقف ہے اور اس کے تمام احکام مبنی پر حکمت ہوتے ہیں۔ بعض روایات میں اور قصہ بھی آیا ہے چونکہ اس قصے کی سند میں ضعف ہے اس لئے ہم نے اس کو نظر انداز کردیا وہ یہ کہ شاید حضرت حفصہ ؓ سے فرمایا کہ میرے بعد خلیفہ ابوبکر ہوگا اس کے بعد تیرا باپ عمر ؓ ہوگا لیکن یہ بات کسی سے ذکر نہ کرنا۔ بہرحال عورتوں میں حافظے کی کمزوری تو ظاہر ہے اس لئے یہ عورتیں حضور ﷺ کے راز کو پوشیدہ نہ رکھ سکیں اس کو آگے ارشاد فرمایا۔
Top