Maarif-ul-Quran - Al-Faatiha : 2
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ
الْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰہِ : اللہ کے لیے رَبِّ : رب الْعَالَمِينَ : تمام جہان
سب تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جو پالنے والا سارے جہان کا
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ کے معنی یہ ہیں کہ سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں یعنی دنیا میں جہاں کہیں کسی چیز کی تعریف کی جاتی ہے وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی تعریف ہے کیونکہ اس جہان رنگ و بو میں جہان ہزاروں حسین مناظر اور لاکھوں دل کش نظارے اور کڑوڑوں نفع بخش چیزیں انسان کے دامن دل کو ہر وقت اپنی طرف کھینچتی رہتی ہیں اور اپنی تعریف پر مجبور کرتی ہیں اگر ذرا نظر کو گہرا کیا جائے تو ان سب چیزوں کے پردے میں ایک ہی دست قدرت کار فرما نظر آتا ہے اور دنیا میں جہان کہیں کسی چیز کی تعریف کی جاتی ہے اس کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں جیسے کسی نقش و نگار یا تصویر کی یا کسی صنعت کی تعریف کی جائے کہ یہ سب تعریفیں درحقیقت نقاش اور مصور کی یاصنّاع کی ہوتی ہیں اس جملے نے کثرتوں کے تلاطم میں پھنسے ہوئے انسان کے سامنے ایک حقیقت کا دروازہ کھول کر یہ دکھلا دیا کہ یہ ساری کثرتیں ایک ہی وحدت سے مربوط ہیں اور ساری تعریفیں درحقیقت اسی ایک قادر مطلق کی ہیں ان کو کسی دوسرے کی تعریف سمجھنا نظر و بصیرت کی کوتاہی ہے۔
حمد را با تو نسبتے است درست
بر در ہر کہ رفت بر درتست
اور یہ ظاہر ہے کہ جب ساری کائنات میں لائق حمد درحقیقت ایک ہی ذات ہے تو عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ اگرچہ حمد وثناء کے لئے لایا گیا ہے لیکن اس ضمن میں ایک معجزانہ انداز سے مخلوق پرستی کی بنیاد ختم کردی گئی اور دل نشین طریق پر توحید کی تعلیم دی گئی ہے،
غور کیجئے کہ قرآن کے اس مختصر سے ابتدائی جملے میں ایک طرف تو حق تعالیٰ کی حمد وثناء کا بیان ہوا اسی کے ساتھ مخلوقات کی رنگینیوں میں الجھے ہوئے دل و دماغ کو ایک حقیقت کی طرف متوجہ کر کے مخلوق پرستی کی جڑ کاٹ دی گئی اور معجزانہ انداز سے ایمان کے سب سے پہلے رکن توحید باری کا نقش اس طرح جما دیا گیا کہ جو دعویٰ ہے اسی میں غور کرو تو وہی اپنی دلیل بھی ہے ۭفَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ ،
رب العالمین کی تفسیر
اس مختصر ابتدائی جملے کے بعد اللہ تعالیٰ کی پہلی صفت رب العلمین ذکر کی گئ ہے مختصر الفاظ میں اس کی تشریح دیکھئے۔
لفظ رب کے معنی عربی لغت کے اعتبار سے تربیت و پرورش کرنے والے کے ہیں اور تربیت اس کو کہتے ہیں کہ کسی چیز کو اس کے تمام مصالح کی رعایت کرتے ہوئے درجہ بدرجہ آگے بڑھایا جائے یہاں تک کہ وہ حدکمال کو پہنچ جائے،
یہ لفظ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کے لئے مخصوص ہے کسی مخلوق کو بدون اضافت کے رب کہنا جائز نہیں کیونکہ ہر مخلوق خود محتاج تربیت ہے وہ کسی دوسرے کی کیا تربیت کرسکتا ہے،
العلمین عالم کی جمع ہے جس میں دنیا کی تمام اجناس آسمان، چاند، سورج اور تمام ستارے اور ہوا وفضا، برق و باران، فرشتے جِنّات، زمین اور اس کی تمام مخلوقات، حیوانات، انسان نباتات، جمادات سب ہی داخل ہیں اس لئے رب العلمین کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ تمام اجناسِ کائنات کی تربیت کرنے والے ہیں اور یہ بھی کوئی بعید نہیں کہ جیسا یہ ایک عالم ہے جس میں ہم بستے ہیں اور اس کے نظام شمسی وقمری اور برق و باراں اور زمین کی لاکھوں مخلوقات کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں یہ سارا ایک ہی عالم ہو اور اسی جیسے اور ہزاروں لاکھوں دوسرے عالم ہوں جو اس عالم سے باہر کی خلا میں موجود ہوں امام رازی نے اپنی تفسیر کبیر میں فرمایا ہے کہ اس عالم سے باہر ایک لامتناہی خلاء کا وجود دلائل عقلیہ سے ثابت ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر قدرت ہے اس کے لئے کیا مشکل ہے کہ اس نے اس لامتناہی خلاء میں ہمارے پیش نظر عالم کی طرح کے اور بھی ہزاروں لاکھوں عالم بنا رکھے ہوں،
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے منقول ہے کہ عالم چالیس ہزار ہیں یہ دنیا مشرق سے مغرب تک ایک عالم ہے باقی اس کے سوا ہیں اسی طرح حضرت مقاتل امام تفسیر سے منقول ہے کہ عالم اسی ہزار ہیں (قرطبی) اس پر جو یہ شبہ کیا جاتا تھا کہ خلاء میں انسانی مزاج کے مناسب ہوا نہیں ہوتی اس لئے انسان یا کوئی حیوان وہاں زندہ نہیں رہ سکتا امام رازی نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ کیا ضروری ہے کہ اس عالم سے خارج خلاء میں جو دوسرے عالم کے باشندے ہوں ان کا مزاج بھی ہمارے عالم کے باشندوں کی طرح ہو جو خلاء میں زندہ نہ رہ سکیں یہ کیوں نہیں ہوسکتا کہ ان عالموں کے باشندوں کے مزاج و طبائع ان کی غذا و ہوا یہاں کے باشندوں سے بالکل مختلف ہوں،
یہ مضمون تو اب سے سات سو ستر سال پہلے کے اسلامی فلاسفر امام رازی کا لکھا ہوا ہے جبکہ فضاء وخلاء کی سیر اور اس کی پیمائش کے آلات و ذرائع ایجاد نہ ہوئے تھے آج راکٹوں اور اسپٹنکوں کے زمانے میں خلاء کے مسافروں نے جو کچھ آکر بتلایا وہ بھی اس سے زیادہ نہیں کہ اس عالم سے باہر کی خلاء کی کوئی حد و نہایت نہیں ہے اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اس غیرمتناہی خلاء میں کیا کچھ موجود ہے، اس دنیا سے قریب ترین سیاروں، چاند، اور مریخ کی آبادی کے بارے میں جو قیاسیات آج کے جدید ترین ماہرین سائنس پیش کر رہے ہیں بلکہ قرین قیاس یہ ہے کہ ان کے مزاج و طبیعت ان کی غذا و ضروریات یہاں کے لوگوں سے بالکل مختلف ہوں اس لئے ایک کو دوسرے پر قیاس کرنے کی کوئی وجہ نہیں،
امام رازی کی تائید اور اس سلسلے کی جدید معلومات کے لئے وہ مقالہ کافی ہے جو امریکی خلائی مسافر جان گلین نے حال میں خلاء کے سفر سے واپس آکر شائع کرایا ہے جس میں شعاعی سال کا نام دے کر ایک طویل مدت ومسافت کا پیمانہ قائم کیا اور اس کے ذریعے اپنی وسعت فکر کی حد تک خلاء کا کچھ اندازہ لگایا اور پھر یہ اقرار کیا کہ کچھ نہیں بتلایا جاسکتا کہ خلاء کی وسعت کتنی اور کہاں تک ہے،
قرآن کے اس مختصر جملے کے ساتھ اب تمام عالم اور اس کی کائنات پر نظر ڈالئے اور بچشم بصیرت دیکھئے کہ حق تعالیٰ نے تربیت عالم کا کیسا مضبوط اور محکم محیر العقول نظام بنایا ہے افلاک سے لے کر عناصر تک، سیارات و نجوم سے لے کر ذارّت تک ہر چیز اس سلسلہ نظام میں بندھی ہوئی اور حکیم مطلق کی خاص حکمت بالغہ کے ماتحت ہر چیز اپنے اپنے کام میں مصروف ایک لقمہ جو انسان کے منہ تک پہنچتا ہے اگر اس کی پوری حقیقت پر انسان غور کرے تو معلوم ہوگا کہ اس کی تیاری میں آسمان اور زمین کی تمام قوتیں اور کڑوڑوں انسانوں اور جانوروں کی محنتیں شامل ہیں سارے عالم کی قوتیں مہینوں مصروف خدمت رہیں جب یہ لقمہ تیار ہوا اور یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ انسان اس میں غور و تدبرّ سے کام لے اور سمجھے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے لے کر زمین تک اپنی تمام مخلوقات کو اس کی خدمت میں لگا رکھا ہے تو جس ہستی کو اس نے مخدومِ کائنات بنا رکھا ہے وہ بیکار وبہیودہ نہیں ہوسکتی اس کا بھی کوئی کام ہوگا اس کے ذمّے بھی کوئی خدمت ہوگی۔
ابرد بادومہ وخورشید وفلک درکاراند تا تونانے بکف آری وبغفلت نخوری۔ ہمہ از بہر تو سرگشتہ و فرمانبردار شرط انصاف نباشد کہ تو فرماں نبری۔
قرآن حکیم نے انسانی آفرینش اور اس کے مقصد حیات کو اس آیت میں واضح فرمایا ہے ،
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ (56: 82)
میں نے جن اور انسان کو اور کسی کام کے لئے نہیں بنایا بجز اس کے کہ وہ میری عبادت کریں،
تقریر مذکورہ سے معلوم ہوا کہ رب العلمین ایک حیثیت سے پہلے جملے الحمد للہ کی دلیل ہے کہ جب تمام کائنات کی تربیت و پرورش کی ذمہ دار صرف ایک ذات اللہ تعالیٰ کی ہے تو حمد وثناء کی حقیقی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے اس لئے آیت الحمد للہ رب العلمین میں حمد وثناء کے ساتھ ایمان کے سب سے پہلے رکن توحید باری تعالیٰ کا بیان بھی مؤ ثر انداز میں آگیا،
دوسری آیت میں صفت رحمت کا ذکر بلفظ صفت رحمٰن ورحیم کیا گیا یہ دونوں صیغے مبالغہ کے ہیں جن میں رحمت خداوندی کی وسعت و کثرت اور کمال کا بیان ہے اس صفت کے ذکر کرنے میں شاید اس طرف اشارہ ہے کہ تمام کائنات و مخلوقات کی تربیت و پرورش کی ذمہ داری جو حق تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے وہ کسی اپنی ضرورت یا دباؤ اور مجبوری سے نہیں بلکہ یہ سب کچھ اس کی صفت رحمت کا تقاضا ہے اگر پوری کائنات نہ ہو تو اس کا کچھ نقصان نہیں اور ہوجائے تو اس پر کچھ بار نہیں،
نہ تنہا بدی چونکہ خلقت نبود نہ چوں کردہ شد بر تو زحمت فزود
Top