Maarif-ul-Quran - Al-Faatiha : 4
مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ
مَالِكِ : مالک يَوْمِ : دن الدِّينِ : بدلہ
مالک روز جزا کا
(آیت) مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ لفظ مالک ملک سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز پر ایسا قبضہ کہ وہ اس میں تصرف کرنے کی جائز قدرت رکھتا ہو (قاموس) لفظ دین کے معنی جزاء دینا۔ ملک یوم الدین کا لفظی ترجمہ ہوا مالک روز جزاء کا یعنی روز جزاء میں ملکیت رکھنے والا وہ ملکیت کس چیز پر ہوگی ؟ اس کا ذکر نہیں کیا گیا تفسیر کشاف میں ہے کہ اس میں اشارہ عموم کی طرف ہے یعنی روز جزاء میں تمام کائنات اور تمام امور کی ملکیت صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہوگی (کشاف)
روز جزاء کی حقیقت اور عقلاً اس کی ضرورت
اب یہاں چند با تیں قابل غور ہیں
اول یہ کہ روز جزا کس دن کا نام ہے، اور اس کی کیا حقیقت ہے ؟ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت تمام کائنات پر جس طرح روز جزا میں ہوگی ایسے ہی آج بھی ہے، پھر روز جزا کی کیا خصو صیت ہے ؟ پہلی بات کا جواب یہ ہے کہ روز جزاء اس دن کا نام ہے جس کو اللہ نے نیک وبد اعمال کا بدلہ دینے کے لیے مقرر فرمایا ہے، لفظ روز جزا سے ایک عظیم الشان فائدہ یہ حاصل ہوا کہ دنیا نیک وبد اعمال کی جزاء وسزا کی جگہ نہیں بلکہ دارالعمل فرض ادا کرنے کا دفتر ہے تنخواہ یاصلہ وصول کرنے کی جگہ نہیں اس سے معلوم ہوگیا کہ دنیا میں کسی کو عیش و عشرت دولت و راحت سے مالامال دیکھ کر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اللہ کے نزدیک مقبول و محبوب ہے یا کسی کو رنج و مصیبت میں مبتلا پا کر یہ نہیں قرار دیا جاسکتا کہ وہ اللہ کے نزدیک معتوب ومبغوض ہے جس طرح دنیا کے دفتروں اور کارخانوں میں کسی کو اپنا فرض ادا کرنے میں مصروف محنت دیکھا جائے تو کوئی عقلمند اس کو مصیبت زدہ نہیں کہتا اور نہ وہ خود اپنی مشقت کے باوجود اپنے آپ کو گرفتار مصیبت سمجھتا ہے بلکہ وہ اس محنت ومشقت کو اپنی سب سے بڑی کامیابی تصور کرتا ہے اور کوئی مہربان اس کو اس مشقت سے سبکدوش کرنا چاہے تو وہ اس کو اپنا بدترین دشمن خیال کرتا ہے کیونکہ وہ اس تیس روزہ محنت کے پس پردہ اس راحت کو دیکھ رہا ہے جو اس کو تنخواہ کی شکل میں ملنے والی ہے،
Top