Maarif-ul-Quran - Al-Kahf : 11
فَضَرَبْنَا عَلٰۤى اٰذَانِهِمْ فِی الْكَهْفِ سِنِیْنَ عَدَدًاۙ
فَضَرَبْنَا : پس ہم نے مارا (پردہ ڈالا) عَلٰٓي : پر اٰذَانِهِمْ : ان کے کان (جمع) فِي الْكَهْفِ : غار میں سِنِيْنَ عَدَدًا : کئی سال
پھر تھپک دیئے ہم نے ان کے کان اس کھوہ میں چند برس گنتی کے ،
اصحاب کہف کی جگہ اور ان کا زمانہ
امام تفسیر قرطبی اندلسی نے اپنی تفسیر میں اس جگہ چند واقعات کچھ سماعی کچھ چشم دید نقل کئے ہیں، جو مختلف شہروں سے متعلق ہیں، قرطبی نے سب سے پہلے تو ضحاک کی روایت سے یہ نقل کیا ہے کہ رقیم روم کے ایک شہر کا نام ہے، جس کے ایک غار میں اکیس آدمی لیٹے ہوئے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سو رہے ہیں، پھر امام تفسیر ابن عطیہ سے نقل کیا ہے کہ میں نے بہت سے لوگوں سے سنا ہے کہ شام میں ایک غار ہے جس میں کچھ مردہ لاشیں ہیں، وہاں کے مجاورین یہ کہتے ہیں کہ یہی لوگ اصحاب کہف ہیں، اور اس غار کے پاس ایک مسجد اور مکان کی تعمیر ہے جس کو رقیم کہا جاتا ہے، اور ان مردہ لاشوں کے ساتھ ایک مردہ کتے کا ڈھانچہ بھی موجود ہے۔
اور دوسرا واقعہ اندلس غرناطہ کا نقل کیا ہے، ابن عطیہ کہتے ہیں کی غرناطہ میں ایک لوشہ نامی گاؤں کے قریب ایک غار ہے جس میں کچھ مردہ لاشیں ہیں اور ان کے ساتھ ایک مردہ کتے کا ڈھانچہ بھی موجود ہے، ان میں سے اکثر لاشوں پر گوشت باقی نہیں رہا، صرف ہڈیوں کے ڈھانچے ہیں، اور بعض پر اب تک گوشت پوست بھی موجود ہے، صدیاں گزر گیئں، مگر صحیح سند سے ان کا کچھ حال معلوم نہیں، کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہی اصحاب کہف ہیں، ابن عطیہ کہتے ہیں کہ یہ خبر سن کر میں خود سنہ 504 ھ میں وہاں پہنچا تو واقعی یہ لاشیں اسی حالت پر پائیں اور ان کے قریب ہی ایک مسجد بھی ہے، اور ایک رومی زمانے کی تعمیر بھی ہے جس کو رقیم کہا جاتا ہے، ایسا معلوم یوتا ہے کہ قدیم زمانے میں کوئی عالیشان محل ہوگا اس وقت تک بھی اس کی بعض دیواریں موجود ہیں، اور یہ ایک غیر آباد جنگل میں ہے، اور فرمایا کہ غرناطہ کے بالائی حصہ میں ایک قدیم شہر کے آثار و نشانات پائے جاتے ہیں، جو رومیوں کے طرز کے ہیں، اس شہر کا نام دقیوس بتلایا جاتا ہے، ہم نے اس کے کھنڈروں میں بہت سے عجائبات اور قبریں دیکھی ہیں، قرطبی جو اندلس ہی کے رہنے والے ہیں ان تمام واقعات کو نقل کرنے کے بعد بھی کسی کو متعین طور پر اصحاب کہف کہنے سے گریز کرتے ہیں، اور خود ابن عطیہ نے بھی اپنے مشاہدے کے باوجود یہ جزم نہیں کیا کہ یہی لوگ اصحاب کہف ہیں، محض عام شہرت نقل کی ہے، مگر دوسرے اندلسی مفسر ابو حیان جو ساتویں صدی سنہ 654 ھ میں خاص غرناطہ میں پیدا ہوئے وہیں رہے، بسے ہیں وہ بھی اپنی تفسیر بحر محیط میں غرناطہ کے اس غار کا اسی طرح ذکر کرتے ہیں جس طرح قرطبی نے کیا ہے، اور ابن عطیہ کے اپنے مشاہدہ کا ذکر لکھنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ہم جب اندلس میں تھے، اور یہ کہتے تھے کہ اگرچہ وہ لاشیں اب تک وہاں موجود ہیں، اور زیارت کرنے والے ان کو شمار بھی کرتے ہیں مگر ہمیشہ ان کی تعداد بتانے میں غلطی کرتے ہیں، پھر فرمایا کہ ابن عطیہ نے جس شہر دقیوس کا ذکر کیا ہے جو غرناطہ کی جانب قبلہ میں واقع ہے تو اس شہر سے میں خود بیشمار مرتبہ گزرا ہوں، اور اس میں بڑے بڑے غیر معمولی پتھر دیکھے ہیں، اس کے بعد کہتے ہیں ویترجح کون اھل الکھف بالاندلس لکثرۃ دین النصاری بھا حتی ھی بلاد مملکتھم العظمی (تفسیر بحر محیط ص 102 ج 6) یعنی اصحاب کہف کے اندلس میں ہونے کی ترجیح کے لئے یہ بھی قرینہ ہے کہ وہاں نصرانیت کا غلبہ ہے، یہاں تک کہ یہی خطہ ان کی سب سے بڑی مذہبی مملکت ہے اس میں یہ بات واضح ہے کہ ابو حیان کے نزدیک اصحاب کہف کا اندلس میں ہونا راجح ہے۔ { تفسیر قرطبی، 356، 357 ج 9}
امام تفسیر ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے بروایت عوفی حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ رقیم ایک وادی کا نام ہے جو فلسطین سے نیچے ایلہ (عقبہ) کے قریب ہے اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم اور چند دوسرے محدثین نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے یہ نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ رقیم کیا ہے، لیکن میں نے کعب احبار سے پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ رقیم اس بستی کا نام ہے جس میں اصحاب کہف غار میں جانے سے پہلے مقیم تھے (روح المعانی)
ابن ابی شیبہ، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت معاویہ ؓ کے ساتھ رومیوں کے مقابلے میں ایک جہاد کیا جس کو غزوۃ المضیق کہتے ہیں، اس موقع پر ہمارا گزر اس غار پر ہوا جس میں اصحاب کہف ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے حضرت معاویہ ؓ نے ارادہ کیا کہ غار کے اندر جائیں اور اصحاب کہف کی لاشوں کا مشاہدہ کریں، مگر ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ ایسا نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کا مشاہدہ کرنے سے اس ہستی کو بھی منع کردیا ہے جو آپ سے بہتر تھی، یعنی نبی کریم ﷺ ، کیونکہ حق تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا (آیت) لَوِ اطَّلَعْتَ عَلَيْهِمْ لَوَلَّيْتَ مِنْهُمْ فِرَارًا وَّلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْبًا (یعنی اگر آپ ان کو دیکھیں تو آپ ان سے بھاگیں گے اور رعب وہیبت سے مغلوب ہوجائیں گے) مگر حضرت معاویہ ؓ نے ابن عباس ؓ کی اس بات کو شاید اس لئے قبول نہیں کیا کہ قرآن کریم نے ان کی جو حالت بیان کی ہے یہ وہ ہے جو ان کی زندگی کے وقت تھی یہ کیا ضروری ہے کی اب بھی وہی حالت ہو، اس لئے کچھ آدمیوں کو دیکھنے کے لئے بھیجا، وہ غار پر پہونچے، مگر جب غار میں داخل ہونا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک سخت ہوا بھیج دی جس نے ان سب کو غار سے نکال دیا (روح المعانی، صفحہ 227 ج 15)
مذکور الصدر روایات و حکایات سے اتنی بات ثابت ہوئی کہ حضرات مفسرین میں سے جن حضرات نے اصحاب کہف کے غار کی جگہ کا پتہ دیا ہے ان کے اقوال تین مقامات کا پتہ دیتے ہیں، ایک خلیج فارس کے ساحل عقبہ (ایلہ) کے قریب، حضرت ابن عباس ؓ کی بیشتر روایات اسی کی تائید میں ہیں، جیسا کہ مذکورہ روایات میں گزر چکا ہے۔
ابن عطیہ کے مشاہدے اور ابوحیان کی تائید سے یہ راجح معلوم ہوتا ہے کہ یہ غار غرناطہ اندلس میں ہے، ان دونوں جگہوں میں سے عقبہ میں ایک شہر یا کسی خاص عمارت کا نام رقیم ہونا بھی بتلایا گیا ہے، اسی طرح غرناطہ میں غار کے متصل عظیم الشان شکستہ عمارت کا نام رقیم ہونا بھی بتلایا گیا ہے، اور دونوں قسم کی روایات میں کسی نے بھی اس کا مدار مقامی شہرت اور سماعی روایات پر ہے اور تقریبا تمام تفاسیر قرطبی، ابوحیان، ابن جریر وغیرہ کی روایات میں اصحاب کہف جس شہر میں رہتے تھے اس کا قدیم نام افسوس اور اسلامی نام طرسوس بتلایا گیا ہے، اس شہر کا ایشیائے کوچک کے مغربی ساحل پر ہونا اہل تاریخ کے نزدیک مسلم ہے اس سے معلوم ہوا کہ یہ غار بھی ایشائے کوچک میں ہے، اس لئے کسی ایک کو قطعی طور پر صحیح اور باقی کو غلط کہنے کی دلیل نہیں، احتمال تینوں جگہ کا ہوسکتا ہے، بلکہ اس احتمال کی بھی کوئی نفی نہیں کرسکتا کہ ان غاروں کے واقعات صحیح ہونے کے باوجود بھی یہ ان اصحاب کہف کے غار نہ ہوں جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے، وہ اور کسی جگہ ہو اور یہ بھی ضروری نہیں کہ رقیم اس جگہ کسی شہر یا عمارت ہی کا نام ہو بلکہ اس احتمال کی بھی نفی نہیں کی جاسکتی کہ رقیم سے مراد وہ کتبہ ہو جس پر اصحاب کہف کے نام کنندہ کر کے غار کے دہانے پر کسی بادشاہ نے لگا دیا تھا۔

جدید مورخین کی تحقیق
عصر حاضر کے بعض مورخین اور علماء نے مسیحی تاریخوں اور اہل یورپ کی تواریخ کی مدد سے غار اصحاب کہف کی جگہ اور زمانہ متعین کرنے کے لیے کافی بحث و تحقیق کی ہے۔
ابو الکلام صاحب آزاد نے ایلہ (عقبہ) کے قریب موجود شہر ٹپرا جس کو عرب مورخین بطرا لکھتے ہیں، اس کو قدیم شہر رقیم قرار دیا ہے، اور موجودہ تاریخوں سے اس کے قریب پہاڑ میں ایک غار کے آثار بھی بتلائے ہیں، جس کے ساتھ کسی مسجد کی تعمیر کے آثار بھی بتلائے جاتے ہیں، اس کی شہادت میں لکھا ہے کہ بائبل کی کتاب یشوع (باب 18، آیت 27) میں جس جگہ کو رقیم یا راقم کہا ہے یہ وہی مقام ہے جس کو اب ٹپرا کہا جاتا ہے، مگر اس پر یہ شبہ کیا گیا ہے کہ کتاب یشوع میں جو رقم یا راقم کا ذکر بنی بن یمین کی میراث کے سلسلے میں آیا ہے، اور یہ علاقہ دریائے اردن کے اور بحر لوط کے مغرب میں واقع تھا جس میں شہر ٹپرا کے ہونے کا کوئی امکان نہیں، اس لئے اس زمانے کے محققین آثار قدیمہ نے اس بات کے ماننے میں سخت تامل کیا ہے کہ ٹپرا اور راقم ایک چیز ہیں۔ (انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا، طبع سن 1946 جلد 17، ص 1658)
اور عام مفسرین نے اصحاب کہف کی جگہ شہر افسوس کو قرار دیا ہے جو ایشیائے کوچک کے مغربی ساحل پر رومیوں کا سب سے بڑا شہر تھا، جس کے کھنڈرات بھی موجودہ ٹرکی کے شہر ازمیر (سمرنا) سے 20، 25 میل بجانب جنوب پائے جاتے ہیں۔
حضرت مولانا سید سیلمان صاحب ندوی نے بھی ارض القرآن میں شہر ٹپرا کا ذکر کرتے ہوئے بین القوسین (رقیم) لکھا ہے، مگر اس کی کوئی شہادت پیش نہیں کی کہ شہر ٹپرا کا پرانا نام رقیم تھا، مولانا حفظ الرحمن سہواردی نے اپنی کتاب قصص القرآن میں اسی کو اختیار فرمایا اور اس کی شہادت میں تورات سفر عدد اور صحیفہ سعیا کے حوالہ سے شہر ٹپرا کا نام راقمہ بیان کیا ہے (ماخوذ از دائر المعارف عرب)
مملکت اردن میں عمان کے قریب ایک سنسان جنگل میں ایک غار کا پتہ لگا تو حکومت کے محکمہ اثار قدیمہ نے 1963 میں اس جگہ کھدائی کا کام جاری کیا تو اس میں مٹی اور پتھروں کے ہٹانے کے بعد ہڈیوں اور پتھروں سے بھرئے ہوئے چھ تابوت اور دو قبریں برآمد ہوئیں، غار کی جنوبی سمت میں پتھروں پر کندہ کچھ نقوش بھی دریافت ہوئے جو بزنطی زبان میں ہیں، یہاں کے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ یہی جگہ رقیم ہے، جس کے پاس اصحاب کہف کا یہ غار ہے۔ واللہ اعلم
حضرت سیدی حکیم الامت تھانوی نے بیان القرآن میں تفسیر حقانی کے حوالہ سے اصحاب کہف کی جگہ اور مقام کی تاریخی تحقیق یہ نقل کی ہے کہ ظالم بادشاہ جس کے خوف سے بھاگ کر اصحاب کہف نے غار میں پناہ لی تھی، اس کا زمانہ 250 تھا، پھر تین سو سال تک یہ لوگ سوئے رہے، جو مجموعہ 550 ہوگیا، اور رسول اللہ ﷺ کی ولادت 570 میں ہوئی، اس لئے حضور ﷺ کی ولادت سے بیس سال پہلے یہ واقعہ ان کے بیدار ہونے کا پیش آیا، اور تفسیر حقانی میں بھی ان کا مقام شہر افسوس یا طرسوس کو قرار دیا ہے، جو ایشیائے کوچک میں تھا، اب اس کے کھنڈرات موجود ہیں، واللہ اعلم بحقیقۃ الحال
یہ تمام تاریخی اور جغرافیائی تفصیلات ہیں جو قدمائے مفسرین کی روایات سے پھر جدید مورخین کے بیانات سے پیش کی گئی ہیں احقر نے پہلے ہی یہ عرض کردیا تھا کہ نہ قرآن کسی آیت نہ اس مقصد کا کوئی ضروری حصہ ان سے متعلق ہے جس کے لئے قرآن کریم نے یہ قصد بیان کیا ہے، پھر روایات و حکایات اور ان کے آثار و قرائن اس درجہ مختلف ہیں کی ساری تحقیق و کاوش کے بعد بھی اس کا کوئی قطعی فیصلہ ممکن نہیں، صرف ترجیحات اور رجحانات ہی ہو سکتے ہیں، لیکن آج کل تعلیم یافتہ طبقہ میں تاریخی تحقیقات کا ذوق بہت بڑھا ہوا ہے، اس کی تسکین کے لئے یہ تفصیلات نقل کردی گئی ہیں، جن سے تقریبی اور تخمینی طور پر اتنا معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ واقعہ حضرت مسیح ؑ کے بعد رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے قریب پیش آیا، اور بیشتر روایات اس کے شہر افسوس یا طرسوس کے قریب ہونے پر متفق نظر آتی ہیں، واللہ اعلم، اور حقیقت یہ ہے کہ ان تمام تحقیقات کے بعد بھی ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے کہ مقام متعین کرنے کی نہ کوئی ضرورت ہے اور نہ اس کی تعیین کسی یقینی ذریعہ سے کی جاسکتی ہے، امام تفسیر و حدیث ابن کثیر نے اس کے متعلق یہی فرمایا ہے کہ
قد اخبرنا اللہ تعالیٰ بذلک واراد منا فھمہ وتدبرہ ولم یخبرنا بمکان ھذا الکہف فی ای البلاد من الارض اذ لا فائدۃ لنا فیہ ولا قصد شرعی۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہمیں اصحاب کہف کے ان حالات کی خبر دی جن کا ذکر قرآن میں ہے تاکہ ہم ان کو سمجھیں اور ان میں تدبر کریں اور اس کی خبر نہیں دی کہ یہ کہف کس زمین اور کس شہر میں ہے کیونکہ اس میں ہمارا کوئی فائدہ نہیں اور نہ کوئی شرعی مقصد اس سے متعلق ہے۔ (ابن کثیر ج 3 ص 75)
اصحاب کہف کا واقعہ کس زمانے میں پیش آیا ؟ اور غار میں پناہ لینے کے اسباب کیا تھے ؟
قصہ کا یہ ٹکڑا بھی وہی ہے جس پر نہ کسی آیت قرآن کا سمجھنا موقوف ہے، نہ مقصد قصہ پر اس کا کوئی خاص اثر ہے، اور نہ قرآن و سنت میں اس کا بیان ہے، صرف تاریخی حکایات ہیں، اسی لئے ابو حیان نے تفسیر بحر المیط میں فرمایا۔
والرواۃ مختلفون فی قصصہم وکیف کان اجتماعھم وخروجھم ولم یات فی الحدیث الصحیح کیفیۃ ذلک ولا فی القرآن (بحرمیط ص 101 ج 6)
تاہم موجودہ طبائع کی دلچسپی کے لئے جیسے اوپر اصحاب کہف کے مقام سے متعلق کچھ معلومات لکھی گئی ہیں، اس واقعہ کے زمانہ وقوع اور اسباب وقوع کے متعلق بھی مختصر معلومات تفسیری اور تاریخی روایات سے نقل کی جاتی ہیں، اس قصہ کو پوری تفصیل اور استیعاب کے ساتھ حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے تفسیر مظہری میں مختلف روایات سے نقل فرمایا ہے، مگر یہاں صرف وہ مختصر واقعہ لکھا جاتا ہے جس کو ابن کثیر نے سلف وخلف کے بہت سے مفسرین کے حوالہ سے پیش کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ
٫٫ اصحاب کہف بادشاہوں کی اولاد اور اپنی قوم کے سردار تھے، قوم بت پرست تھی، ایک روز ان کی قوم اپنے کسی مذہبی میلے کے لیے شہر سے باہر نکلی، جہاں ان کا سالانہ اجتماع ہوتا تھا، وہاں جا کر یہ لوگ اپنے بتوں کی پوجا پاٹ کرنے، اور ان کے لئے جانوروں کی قربانی دیتے تھے، ان کا بادشاہ ایک جبار ظالم دقیانوس نامی تھا، جو قوم کو اس بت پرستی پر مجبور کرتا تھا، اس سال جب کہ پوری قوم اس میلے میں جمع ہوئی، تو یہ اصحاب کہف نوجوان بھی پہونچے، اور وہاں اپنی قوم کی یہ حرکتیں دیکھیں کہ اپنے ہاتھوں کے تراشے ہوئے پتھروں کو خدا سمجھتے، اور ان کی عبادت کرتے اور ان کے لئے قربانی کرتے ہیں، اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ عقل سلیم عطا فرما دی کہ قوم کی اس احمقانہ حرکت سے ان کو نفرت ہوئی، اور عقل سے کام لیا تو ان کی سمجھ میں آ گیا کہ یہ عبادت تو صرف اس ذات کی ہونی چاہئے جس نے زمین و آسمان اور ساری مخلوقات پیدا فرمائی ہیں، یہ خیال بیک وقت ان چند نوجوانوں کے دل میں آیا، اور ان میں سے ہر ایک نے قوم کی اس احمقانہ عبادت سے بچنے کے لئے اس جگہ سے ہٹنا شروع کیا، ان میں سب سے پہلے ایک نوجوان مجمع سے دور ایک درخت کے نیچے جا کر بیٹھ گیا، اس کے بعد ایک دوسرا شخص آیا اور وہ بھی اسی درخت کے نیچے بیٹھ گیا، اسی طرح پھر تیسرا اور چوتھا آدمی آتا گیا، اور درخت کے نیچے بیٹھتا رہا، مگر ان میں سے کوئی دوسرے کو نہ پہچانتا تھا اور نہ ہی یہ کہ یہاں کیوں آیا ہے، مگر ان کو در حقیقت اس قدرت نے یہاں جمع کیا تھا جس نے ان کے دلوں میں ایمان پیدا فرمایا۔
قومیت اور اجتماعیت کی اصل بنیاد
ابن کثیر نے اس کو نقل کر کے فرمایا کہ لوگ تو باہمی اجتماع کا سبب قومیت اور جنسیت کو سمجھتے ہیں، مگر حقیقت وہ ہے جو صییح بخاری کی حدیث میں ہے کہ درحقیقت اتفاق و افتراق اول ارواح میں ہوتا ہے، اس کا اثر اس عالم کے ابدان میں پڑتا ہے، جن روحوں کے درمیان ازل میں مناسبت اور باہمی توافق نہ ہوا وہ یہاں بھی باہم مربوط اور ایک جماعت کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور جن میں یہ مناسبت اور باہمی اتفاق نہ ہوا بلکہ وہاں علیحدگی رہی ان میں یہاں بھی علیحدگی رہے گی، اسی واقعہ کی مثال کو دیکھو کہ کس طرح الگ الگ ہر شخص کے دل میں ایک ہی خیال پیدا ہوا اس خیال نے ان سب کو غیر شعوری طور پر ایک جگہ جمع کردیا۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ لوگ ایک جگہ جمع تو ہوگئے، مگر ہر ایک اپنے عقیدہ کو دوسرے سے اس لئے چھپاتا تھا کہ یہ کہیں جا کر بادشاہ کے پاس مخبری نہ کر دے، اور میں گرفتار ہوجاؤ ں، کچھ دیر سکوت کے عالم میں جمع رہنے کے بعد ان میں سے ایک شخص بولا کہ بھائی ہم سب کے سب قوم سے علیحدہ ہو کر یہاں پہنچنے کا کوئی سبب تو ضرور ہے، مناسب یہ ہے کہ ہم سب باہم ایک دوسرے کے خیال سے واقف ہوجائیں، اس پر ایک شخص بول اٹھا، کہ حقیقت یہ ہے کہ میں نے اپنی قوم کو جس دین، مذہب اور جس عبادت میں مبتلا پایا مجھے یقین ہوگیا کہ یہ باطل ہے، عبادت جو صرف اللہ جل شانہ کہ ہونی چاہئے، جس کا تخلیق کائنات میں کوئی شریک اور ساجھی نہیں، اب تو دوسروں کو بھی موقع مل گیا، اور ان میں سے ہر ایک نے اقرار کیا کہ یہی عقیدہ اور خیال ہے جس نے مجھے قوم سے علیحدہ کر کے یہاں پہونچایا۔
اب یہ ایک متحد الخیال جماعت ایک دوسرے کی رفیق اور دوست ہوگئی، اور انہوں نے الگ اپنی ایک عبادت گاہ بنا لی، جس میں جمع ہو کر یہ لوگ اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کرنے لگے۔ مگر شدہ شدہ ان کی خبر شہر میں پھیل گئی، اور چغل خوروں نے بادشاہ تک ان کی خبر پہنچا دی بادشاہ نے ان سب کو حاضر ہونے کا حکم دیا، یہ لوگ دربار میں حاضر ہوئے تو بادشاہ نے ان کے عقیدے اور طریقے کے متعلق سوال کیا، اللہ نے ان کو ہمت بخشی، انہوں نے بغیر کسی خوف و خطر کے اپنا عقیدہ توحید بیان کردیا، اور خود بادشاہ کو بھی اس کی طرف دعوت دی، اسی کا بیان قرآن کریم کی آیات میں اس طرح آیا ہے(آیت) وَّرَبَطْنَا عَلٰي قُلُوْبِهِمْ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَا مِنْ دُوْنِهٖٓ اِلٰـهًا لَّقَدْ قُلْنَآ اِذًا شَطَطًا (الی قولہ) کَذِبا
جب ان لوگوں نے بادشاہ کو بےباک ہو کر دعوت ایمان دی تو بادشاہ نے اس سے انکار کیا اور ان کو ڈرایا دھمکایا، اور ان کے بدن سے وہ عمدہ پوشاک جو ان شہزادوں کے بدن پر تھی اتروا دی، تاکہ یہ لوگ اپنے معاملہ میں غور کریں، اور غور کرنے کے لئے چند روز کی مہلت یہ کہہ کر دے دی کہ تم نوجوان ہو میں تمہارے قتل میں اس لئے جلدی نہیں کرتا کہ تم کو غور کرنے کا موقع مل جاتا ہے اب بھی اگر تم اپنی قوم کے دین و مذہب پر آجاتے ہو تو تم اپنے حال پر رہو گے ورنہ قتل کردیئے جاؤ گے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم اپنے مومن بندوں پر تھا، کہ اس مہلت نے ان لوگوں کے لئے راہ فرار کھول دی، اور یہ لوگ یہاں سے بھاگ کر ایک غار میں روپوش ہوگئے۔
عام روایات مفسرین اس پر متفق ہیں کہ یہ لوگ دین مسیح ؑ پر تھے، ابن کثیر اور دوسرے تمام مفسرین نے یہ ذکر کیا ہے اگرچہ ابن کثیر نے اس کو قبول اس لئے نہیں کیا کہ اگر یہ لوگ مسیحی دین پر ہوتے تو یہود مدینہ ان سے عداوت کی بنا پر ان کے واقعہ کا سوال نہ کراتے اور ان کو اہمیت نہ دیتے مگر یہ کوئی ایسی بنیاد نہیں جس کی وجہ سے تمام روایات کو رد کردیا جائے، یہود مدینہ نے تو محض ایک واقعہ عجیبہ ہونے کی حیثیت سے اس کا سوال کرایا، جیسے ذوالقرنین کا سوال بھی اسی بنا پر ہے، اس طرح کے سوالات میں یہودیت اور نصرانیت کا تعصب درمیان میں نہ آنا ہی ظاہر ہے۔
تفسیر مظہری میں بروایت ابن اسحاق ان لوگوں کو ان موحدین میں شمار کیا ہے جو مسیحی دین کے مٹ جانے کے بعد ان کے حق پرست لوگ خال خال رہ گئے تھے، جو صحیح دین مسیح اور توحید پر قائم تھے، ابن اسحاق کی روایت میں بھی اس ظالم بادشاہ کا نام دقیانوس بتلایا ہے، اور جس شہر میں یہ نوجوان غار میں چھپنے سے پہلے رہتے تھے اس کا نام افسوس بتلایا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت میں بھی واقعہ اسی طرح بیان کیا ہے، اور بادشاہ کا نام دقیانوس بتلایا ہے، ابن اسحاق کی روایت میں یہ بھی ہے کہ اصحاب کہف کے بیدار ہونے کے وقت ملک پر دین مسیح ؑ کے پابند جن لوگوں کا قبضہ ہوگیا تھا ان کے بادشاہ کا نام بیدوسیس تھا۔
مجموعہ روایات سے یہ بات تو بظن غالب ثابت ہوجاتی ہے کہ اصحاب کہف صحیح دین مسیح ؑ پر تھے اور ان کا زمانہ بعد المسیح ہے، اور جس بادشاہ مشرک سے بھاگے تھے اس کا نام دقیانوس تھا، تین سو نو سال کے بعد بیدار ہونے کے وقت جس نیک مومن بادشاہ کی حکومت تھی ابن اسحاق کی روایت میں اس کا نام بیدوسیس بتلایا ہے، اس کے ساتھ موجودہ زمانے کی تاریخوں کو ملا کر دیکھا جائے تو تخمینی اور تقریبی طور پر ان کا زمانہ متعین ہوسکتا ہے، اس سے زیادہ تعین کی نہ ضرورت ہے اور نہ اس کے علم کے اسباب موجود ہیں۔
کیا اصحاب کہف اب بھی زندہ ہیں
اس معاملے میں صحیح اور ظاہر یہی ہے کہ ان کی وفات ہوچکی ہے، تفسیر مظہری میں ابن اسحاق کی مفصل روایت میں ہے کہ اصحاب کہف کی بیداری اور شہر میں ان کے واقعہ عجیبہ کی شہرت ہوجانے اور اس وقت کے بادشاہ بیدوسیس کے پاس پہنچ کر ملاقات کرنے کے بعد اصحاب کہف نے ملک بیدوسیس سے رخصت چاہی، اور رخصتی سلام کے ساتھ اس کے لئے دعا کی، اور ابھی بادشاہ اسی جگہ موجود تھا کہ یہ لوگ اپنے لیٹنے کی جگہوں پر جا کر لیٹ گئے، اور اسی وقت اللہ تعالیٰ نے ان کو موت دیدی۔
اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی یہ روایت ابن جریر، ابن کثیر وغیرہ مفسرین نے نقل کی ہے کہ
قال قتادۃ غزا ابن عباس مع حبیب بن مسلمۃ فمروا بکہف فی بلاد الروم فرأوا فیہ عظاما فقال قآئل ھذہ عظام اھل الکہف فقال ابن عباس لقد بلیت عظامھم من اکثر من ثلث مائۃ سنۃ (ابن کثیر)
قتادہ کہتے ہیں کہ ابن عباس ؓ نے حبیب ابن مسلمہ کے ساتھ ایک جہاد کیا تو بلاد روم میں ان کا گذر ایک غار پر ہوا جس میں مردہ لاشوں کی ہڈیاں تھیں کسی نے کہا کہ یہ اصحاب کہف کی ہڈیاں ہیں تو ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ ان کی ہڈیاں تو اب سے تین سو برس پہلے خاک ہوچکی ہیں۔
یہ سب اس تاریخی قصے کے وہ اجزاء تھے جن کو نہ قرآن نے بیان کیا نہ حدیث رسول اللہ ﷺ نے اور نہ اس واقعہ کا کوئی خاص مقصد یا قرآن کی کسی آیت کا سمجھنا اس پر موقوف ہے، اور نہ تاریخی روایات سے ان چیزوں کا کوئی قطعی فیصلہ کیا جاسکتا ہے، باقی رہے قصے کے وہ اجزا جن کا خود قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے ان کی تفصیل انہی آیات کے تحت آتی ہے۔
یہاں تک قرآن کریم نے اس قصے کا اجمالی ذکر فرمایا تھا، آگے تفصیلی ذکر آتا ہے۔
Top