Maarif-ul-Quran - Al-Kahf : 24
اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ١٘ وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِیْتَ وَ قُلْ عَسٰۤى اَنْ یَّهْدِیَنِ رَبِّیْ لِاَقْرَبَ مِنْ هٰذَا رَشَدًا
اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ يَّشَآءَ : چاہے اللّٰهُ : اللہ وَاذْكُرْ : اور تو یاد کر رَّبَّكَ : اپنا رب اِذَا : جب نَسِيْتَ : تو بھول جائے وَقُلْ : اور کہہ عَسٰٓي : امید ہے اَنْ يَّهْدِيَنِ : کہ مجھے ہدایت دے رَبِّيْ : میرا رب لِاَقْرَبَ : بہت زیادہ قریب کی مِنْ هٰذَا : اس سے رَشَدًا : بھلائی
مگر یہ کہ اللہ چاہے اور یاد کرلے اپنے رب کو جب بھول جائے اور کہہ امید ہے کہ میرا رب مجھ کو دکھلائے اس سے زیادہ نزدیک راہ نیکی کی
آئندہ کام کرنے پر انشاء اللہ کہنا
لباب میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے پہلی دو آیتوں کے شان نزول کے متعلق یہ نقل کیا ہے کہ جب اہل مکہ نے یہود کی تعلیم کے مطابق رسول اللہ ﷺ سے قصہ اصحاب کہف وغیرہ کے متعلق سوال کیا تو آپ نے ان سے کل جواب دینے کا وعدہ بغیر انشاء اللہ کہے ہوئے کرلیا تھا، مقربین بارگاہ کی ادنی سی کوتاہی پر تنبیہ ہوا کرتی ہے، اس لئے پندرہ روز تک وحی نہ آئی، اور آنحضرت ﷺ کو بڑا غم ہوا، اور مشرکین مکہ کو ہنسنے اور مذاق اڑانے کا موقع ملا، پندرہ روز کے اس وقفہ کے بعد جب اس سورة میں سوالات کا جواب نازل ہوا تو اس کے ساتھ ہی یہ دو آیتیں ہدایت دینے کے لئے نازل ہوئیں کہ آئندہ کسی کام کے کرنے کو کہنا ہو تو انشاء اللہ کہہ کر اس کا اقرار کرلیا کریں کہ ہر کام اللہ تعالیٰ کے ارادے اور مشیت پر موقوت ہے، ان دونوں آیتوں کو قصہ اصحاب کہف کے ختم پر لایا گیا ہے۔
مسئلہاس آیت سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ ایسی صورت میں انشاء اللہ کہنا مستحب ہے، دوسرے یہ معلوم ہوا کہ اگر بھولے سے یہ کلمہ کہنے سے رہ جائے تو جب یاد آئے اسی وقت کہہ لے یہ حکم اس مخصوس معاملہ کے لئے ہے جس کے متعلق یہ آیات نازل ہوئی ہیں، یعنی محض تبرک اور اقرار عبدیت کے لئے یہ کلمہ کہنا مقصود ہوتا ہے، کوئی تعلیق اور شرط لگانا مقصود نہیں ہوتا اس لئے اس سے لازم نہیں آتا کہ معاملات بیع و شرا اور معاہدات میں جہاں شرطیں لگائی جاتی ہیں، اور شرط لگانا طرفین کے لئے معاہدہ کا مدار ہوتا ہے وہاں بھی اگر معاہدہ کے وقت کوئی شرط لگانا بھول جائے تو پھر کبھی جب یاد آجائے جو چاہے شرط لگا لے، اس مسئلے میں بعض فقہا کا اختلاف بھی ہے، جس کی تفصیل کتب فقہ میں ہے۔
Top