Maarif-ul-Quran - Al-Kahf : 25
وَ لَبِثُوْا فِیْ كَهْفِهِمْ ثَلٰثَ مِائَةٍ سِنِیْنَ وَ ازْدَادُوْا تِسْعًا
وَلَبِثُوْا : اور وہ رہے فِيْ : میں كَهْفِهِمْ : اپنا غار ثَلٰثَ مِائَةٍ : تین سو سِنِيْنَ : سال وَ : اور ازْدَادُوْا : اور ان کے اوپر تِسْعًا : نو
اور مدت گزری ان پر اپنی کھوہ میں تین سو برس اور ان کے اوپر نو
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اصحاب کہف کے معاملے میں خود ان کے زمانے میں، پھر عہد نبوی کے اندر یہود و نصاری میں دو باتیں زیر اختلاف تھیں ایک اصحاب کہف کی تعداد دوسری غار میں ان کے سوتے رہنے کی مدت، قرآن نے ان دونوں کو بیان تو کردیا، مگر اس فرق کے ساتھ ان کی تعداد کا بیان صریح الفاظ میں نہیں آیا، اشارے کے طور پر آیا، کہ جو قول صحیح تھا اس کی تردید نہیں کی اور مدت کی تعیین کو صاف وصریح الفاظ میں بتلایا وَلَبِثُوْا فِيْ كَهْفِهِمْ ثَلٰثَ مِائَةٍ سِنِيْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا وجہ یہ ہے کہ قرآن نے اپنے اس اسلوب سے اس طرف اشارہ فرمایا کہ تعداد کی بحث تو بالکل ہی فضول ہے، اس سے کسی دینوی دینی مسئلہ کا تعلق نہیں البتہ مدت دراز تک خلاف عادت انسانی سوتے رہنا اور بغیر غذا کے صحیح تندرست رہنا پھر اتنے عرصہ کے بعد صحت مند اور قوی اٹھ کر بیٹھ جانا ایک نظیر حشر ونشر کی ہے اس سے مسئلہ قیامت و آخرت پر استدلال ہوسکتا ہے، اس لئے اس کو بصراحت بیان کردیا۔
جو لوگ معجزات اور خوارق عادات کے منکر ہیں یا کم از کم آج کل کے مستشرقین یہود و نصاری کے اعتراضات سے مرعوب ہو کر ان میں تاویلیں کرنے کے خوگر ہوگئے ہیں انہوں نے اس آیت میں بھی حضرت قتادہ کی تفسیر کا سہارا لے کر تین سے نو سال کی مدت انہی لوگوں کا قول قرار دے کر رد کرنا چاہا ہے، مگر اس پر غور نہیں کیا کہ قرآن کے ابتدائی جملے میں جو لفظ سِنِيْنَ عَدَدًا کا آیا ہے اس کو تو سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کا قول نہیں کہا جاسکتا، خرق عادت اور کرامت کے ثبوت کے لئے اتنا بھی کافی ہے کہ سالہا سال کوئی سوتا رہے اور پھر صحیح، تندرست زندہ اٹھ کر بیٹھ جائے۔ واللہ اعلم
Top