Maarif-ul-Quran - Al-Kahf : 27
وَ اتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ١ؕۚ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ١۫ۚ وَ لَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا
وَاتْلُ : اور آپ پڑھیں مَآ اُوْحِيَ : جو وحی کی گئی اِلَيْكَ : آپ کی طرف مِنْ : سے كِتَابِ : کتاب رَبِّكَ : آپ کا رب لَا مُبَدِّلَ : نہیں کوئی بدلنے والا لِكَلِمٰتِهٖ : اس کی باتوں کو وَ : اور لَنْ تَجِدَ : تم ہرگز نہ پاؤگے مِنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا مُلْتَحَدًا : کوئی پناہ گاہ
اور پڑھ جو وحی ہوئی تجھ کو تیرے رب کی کتاب سے کوئی بدلنے والا نہیں اس کی باتیں اور کہیں نہ پائے گا تو اس کے سوائے چھپنے کو جگہ
خلاصہ تفسیر
اور (آپ کا کام صرف اس قدر ہے کہ) آپ کے پاس جو آپ کے رب کی کتاب وحی کے ذریعہ آئی ہے وہ (لوگوں کے سامنے) پڑھ دیا کیجئے (اس سے زیادہ اس کی فکر میں نہ پڑیں کہ دنیا کے بڑے لوگ اگر اسلام کی مخالفت کرتے رہے تو دین کو ترقی کس طرح ہوگی، کیونکہ اس کا اللہ تعالیٰ نے خود وعدہ فرما لیا ہے اور) اس کی باتوں کو (یعنی وعدوں کو) کوئی نہیں بدل سکتا (یعنی ساری دنیا کے مخالف بھی مل کر اللہ کو وعدہ پورا کرنے سے نہیں روک سکتے اور اللہ تعالیٰ خود اگرچہ تبدیلی پر قدرت رکھتے ہیں مگر وہ تبدیل نہیں کریں گے) اور (اگر آپ نے ان بڑے لوگوں کی دل جوئی اس طرح کی جس سے احکام الہی ترک ہوجاویں تو پھر) آپ خدا کے سوا کوئی پناہ نہ پاویں گے (اگرچہ احکام آلہیہ کا ترک رسول اللہ ﷺ سے بدلائل شرعیہ محال ہے، یہاں مبالغہ اور تاکید کے لئے بفرض محال یہ کہا گیا ہے) اور (جیسا کہ کفار کے امیروں اور رئیسوں سے آپ کو مستغنی رہنے کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح فقراء مسلمین کے حال پر مزید توجہ کا آپ کو حکم ہے پس) آپ اپنے کو ان لوگوں کے ساتھ (بیٹھنے میں) مقید رکھا کیجئے جو صبح و شام (یعنی علی الدوام) اپنے رب کی عبادت محض اس کی رضا جوئی کے لئے کرتے ہیں (کوئی غرض دنیوی نہیں) اور دنیوی زندگی کی رونق کے خیال سے آپ کی آنکھیں (یعنی توجہات) ان سے ہٹنے پاویں (رونق دنیا کے خیال سے مراد یہ ہے کہ رئیس لوگ مسلمان ہوجاویں تو اسلام کی رونق بڑھے گی، اس آیت میں بتلا دیا گیا کہ اسلام کی رونق مال و متاع سے نہیں بلکہ اخلاص و اطاعت سے ہے وہ غریب فقیر لوگوں میں ہو تو بھی رونق اسلام کی بڑھے گی) اور ایسے شخص کا کہنا (غریبوں کو مجلس سے ہٹا دینے کے متعلق) نہ مانئے جس کے قلب کو ہم نے (اس کے عناد کی سزا میں) اپنی یاد سے غافل کر رکھا ہے اور وہ اپنی نفسانی خواہش پر چلتا ہے، اور اس کا یہ حال (یعنی اتباع ہوی) حد سے گزر گیا ہے اور آپ (ان رؤ سا کفار سے صاف) کہہ دیجئے کہ (یہ دین) حق تمہارے رب کی طرف سے (آیا) ہے، سو جس کا جی چاہے ایمان لاوے اور جس کا جی چاہے کافر رہے (ہمارا کوئی نفع نقصان نہیں، بلکہ نفع نقصان خود اس کا ہے جس کا بیان یہ ہے کہ) بیشک ہم نے ایسے ظالموں کے لئے (دوزخ کی) آگ تیار کر رکھی ہے کہ اس آگ کی قناتیں ان کو گھیرے ہوں گی (یعنی وہ قناتیں بھی آگ ہی کی ہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ یہ لوگ اس گھیرے سے نہ نکل سکیں گے) اور اگر (پیاس سے) فریاد کریں گے تو ایسے پانی سے ان کی فریاد رسی کی جاوے گی جو (مکروہ صورت ہونے میں تو) تیل کی تلچھٹ کی طرح ہوگا (اور تیز گرم ایسا ہوگا کہ پاس لاتے ہی) مونہوں کو بھون ڈالے گا (یہاں تک کہ چہرے کی کھال اتر کر گر پڑے گی جیسا کہ حدیث میں ہے) کیا یہی برا پانی ہوگا اور وہ دوزخ بھی کیا ہی بری جگہ ہوگی (یہ تو ایمان نہ لانے کا ضرر ہوا، اور ایمان لانے کا نفع یہ ہے کہ) بیشک جو اچھی طرح کام کو کرے، ایسے لوگوں کے لئے ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں ان کے (مساکن کے نیچے) نہریں بہتی ہوں گی ان کو وہاں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور سبز رنگ کے کپڑے باریک اور دبیز ریشم کے پہنیں گے (اور) وہاں مسہریوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے، کیا ہی اچھا صلہ ہے اور (جنت) کیا ہی اچھی جگہ ہے۔
Top