Maarif-ul-Quran - Al-Kahf : 46
اَلْمَالُ وَ الْبَنُوْنَ زِیْنَةُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ۚ وَ الْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌ اَمَلًا
اَلْمَالُ : مال وَالْبَنُوْنَ : اور بیٹے زِيْنَةُ : زینت الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَالْبٰقِيٰتُ : اور باقی رہنے والی الصّٰلِحٰتُ : نیکیاں خَيْرٌ : بہتر عِنْدَ رَبِّكَ : تیرے رب کے نزدیک ثَوَابًا : ثواب میں وَّخَيْرٌ : اور بہتر اَمَلًا : آرزو میں
مال اور بیٹے رونق ہیں دنیا کی زندگی میں اور باقی رہنے والی نیکیوں کا بہتر ہے تیرے رب کے یہاں بدلہ اور بہتر ہے توقع
معارف و مسائل
وَالْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ مسند احمد، ابن حبان اور حاکم نے بروایت حضرت ابوسعید خدری ؓ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ باقیات صالحات کو زیادہ سے زیادہ جمع کیا کرو، عرض کیا گیا کہ وہ کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا سبحان اللہ لا الہ الا اللہ الحمد للہ اللہ اکبر ولاحول ولا قوۃ الا باللہ کہنا حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے، اور عقیلی نے حضرت نعمان بن بشیر ؓ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سبحان اللہ والحمد للہ ولآالہ الا اللہ واللہ اکبر یہی باقیات صالحات ہیں، یہی مضمون طبرانی نے بروایت حضرت سعد بن عبادہ بھی روایت کیا ہے، اور صحیح مسلم و ترمذی نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ کلمہ یعنی سبحان اللہ والحمد للہ ولآالہ الا اللہ واللہ اکبر میرے نزدیک ان تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے جن پر آفتاب کی روشنی پڑتی ہے، یعنی سارے جہان سے۔
اور حضرت جابر ؓ نے فرمایا کہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ بکثرت پڑھا کرو کیونکہ یہ ننانوے باب بیماری اور تکلیف کے دور کردیتا ہے، جن میں سب سے کم درجہ کی تکلیف ہم یعنی فکر و غم ہے۔
اسی لئے اس آیت میں لفظ باقیات صالحات کی تفسیر حضرت ابن عباس ؓ ، عکرمہ، مجاہد نے یہی کی ہے کی مراد اس سے یہی کلمات پڑھنا ہے، اور سعید بن جبیر، مسروق اور ابراہیم نے فرمایا کی باقیات صالحات سے پانچ نمازیں مراد ہیں۔
اور حضرت ابن عباس ؓ سے ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ آیت میں باقیات صالحات سے مراد مطلق اعمال صالحہ ہیں جن میں یہ کلمات مذکورہ بھی داخل ہیں، پانچوں نمازیں بھی اور دوسرے تمام نیک اعمال بھی، حضرت قتادہ ؓ سے بھی یہی تفسیر منقول ہے (مظہری)
الفاظ قرآن کے مطابق بھی یہی ہے کیونکہ ان الفاظ کا لفظی مفہوم وہ اعمال صالحہ ہیں جو باقی رہنے والے ہیں، اور یہ ظاہر ہے کہ اعمال صالحہ سب ہی اللہ کے نزدیک باقی اور قائم ہیں ابن جریر طبری اور قرطبی نے اسی تفسیر کو ترجیح دی ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ کھیتی دو قسم کی ہوتی ہے، دنیا کی کھیتی تو مال و اولاد ہے، اور آخرت کی کھیتی باقیات صالحات ہیں، حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ باقیات صالحات انسان کی نیت اور ارادہ ہیں کی اعمال صالحہ کی قبولیت اس پر موقوف ہے۔
اور عبید ابن عمر نے فرمایا کہ باقیات صالحات نیک لڑکیاں ہیں کہ وہ اپنے والدین کے لئے سب سے بڑا ذخیرہ ثواب ہیں، اس پر حضرت صدیقہ عائشہ کی ایک روایت دلالت کرتی ہے جو رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے، کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے اپنی امت کے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کو جہنم میں لے جانے کا حکم دے دیا گیا، تو اس کی نیک لڑکیاں اس کو چمٹ گئیں اور رونے اور شور کرنے لگیں، اور اللہ تعالیٰ سے فریاد کی کہ اے اللہ انہوں نے دنیا میں ہم پر بڑا احسان کیا، اور ہماری تربیت میں محنت اٹھائی ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس پر رحم فرما کر بخش دیا (قرطبی)
Top