Maarif-ul-Quran - Al-Kahf : 67
قَالَ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا
قَالَ : اس نے کہا اِنَّكَ : بیشک تو لَنْ تَسْتَطِيْعَ : ہرگز نہ کرسکے گا تو مَعِيَ : میرے ساتھ صَبْرًا : صبر
بولا تو نہ ٹھہر سکے گا میرے ساتھ
عالم شریعت کیلئے جائز نہیں کہ خلاف شرع امر پر صبر کرے
(آیت) اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيْعَ مَعِيَ صَبْرًا وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلٰي مَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ خُبْرًا حضرت خضر ؑ نے حضرت موسیٰ ؑ سے کہا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکیں گے اور کیسے صبر کریں گے جب کہ آپ کو حقیقت امر کی اطلاع نہ ہو مطلب یہ تھا کہ مجھے جو علم عطا ہوا ہے اس کی نوعیت آپ کے علم سے مختلف ہے اس لئے آپ کو میرے معاملات قابل اعتراض نظر آئیں گے جب تک کہ میں ان کی حقیقت سے آپ کو مطلع نہ کر دوں آپ اپنے فرض منصبی کی بناء پر اس پر اعتراض کریں گے۔
حضرت موسیٰ ؑ کو چونکہ خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے پاس جانے اور ان سے علم سیکھنے کا حکم ہوا تھا اس لئے یہ اطمینان تھا کہ ان کا کوئی فعل درحقیقت خلاف شرع نہیں ہوگا گو ظاہر میں سمجھ میں نہ آئے اس لئے صبر کرنے کا وعدہ کرلیا ورنہ ایسا وعدہ کرنا بھی کسی عالم دین کے لئے جائز نہیں لیکن پھر شریعت کے بارے میں دینی غیرت کے جذبہ سے مغلوب ہو کر اس وعدہ کو بھول گئے۔
پہلا واقعہ تو زیادہ سنگین بھی نہ تھا صرف کشتی والوں کا مالی نقصان یا غرق ہونے کا صرف خطرہ ہی تھا جو بعد میں رفع ہوگیا لیکن بعد کے واقعات میں موسیٰ ؑ نے یہ وعدہ بھی نہیں کیا کہ میں اعتراض نہیں کروں گا اور جب لڑکے کے قتل کا واقعہ دیکھا تو شدت کے ساتھ اعتراض کیا اور اپنے اعتراض پر کوئی عذر بھی پیش نہیں کیا صرف اتنا کہا کہ اگر آئندہ اعتراض کروں تو آپ کو حق ہوگا کہ مجھے ساتھ نہ رکھیں کیونکہ کسی نبی اور پیغمبر سے یہ برداشت نہیں ہوسکتا کہ خلاف شرع کام ہوتا دیکھ کر صبر کرے البتہ چونکہ دوسری طرف بھی پیغمبر ہی تھے اس لئے بالآخر حقیقت کا انکشاف اس طرح ہوا کہ یہ واقعات جزئیہ خضر ؑ کے لئے عام قواعد شرعیہ سے مستثنی کردیئے گئے تھے انہوں نے جو کچھ کیا وحی الہی کے مطابق کیا (مظہری)
علم موسوی اور علم خضری میں ایک بنیادی فرق اور دونوں میں ظاہری تضاد کا حل
یہاں طبعی طور پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ خضر ؑ کی تصریح کے مطابق ان کو جو علم عطا ہوا تھا اس کی نوعیت حضرت موسیٰ ؑ کے علم سے مختلف تھی مگر جب کہ یہ دونوں علم حق تعالیٰ ہی کی طرف سے عطا ہوئے تھے تو ان دونوں کے احکام میں تضاد و اختلاف کیوں ہوا اس کی تحقیق تفسیر مظہری میں حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ نے جو لکھی ہے وہ اقرب الی الصواب اور دل کو لگنے والی ہے ان کی تقریر کا مطلب جو میں سمجھا ہوں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ
حق تعالیٰ جن حضرات کو اپنی وحی اور نبوت سے سرفراز فرماتے ہیں اور عموماً تو وہی حضرات ہوتے ہیں جن کے سپرد اصلاح خلق کی خدمت ہوتی ہے ان پر کتاب اور شریعت نازل کی جاتی ہے جن میں خلق خدا کی ہدایت اور اصلاح کے اصول و قواعد ہوتے ہیں جتنے انبیاء (علیہم السلام) کا ذکر قرآن کریم میں بتصریح نبوت و رسالت آیا ہے وہ سب کے سب ایسے ہی تھے جن کے سپرد و تشریعی اور اصلاحی خدمات تھیں ان پر جو وحی آتی تھی وہ بھی سب اسی سے متعلق تھی مگر دوسری طرف کچھ تکوینی خدمات بھی ہیں جن کے لئے عام طور سے ملائکۃ اللہ مقرر ہیں مگر زمرہ انبیاء (علیہم السلام) میں بھی حق تعالیٰ نے بعض کو اسی قسم کی تکوینی خدمات کے لئے مخصوص کرلیا ہے حضرت خضر ؑ اسی زمرہ میں سے ہیں تکوینی خدمات واقعات جزئیہ سے متعلق ہوتی ہیں کہ فلاں شخص ڈوبنے والے کو بچا لیا جائے یا فلاں کو ہلاک کردیا جائے فلاں کو ترقی دی جائے فلاں کو زیر کیا جائے ان معاملات کا نہ عام لوگوں سے کوئی تعلق ہوتا ہے نہ ان کے احکام عوام سے متعلق ہوتے ہیں ایسے واقعات جزئیہ میں بعض وہ صورتیں بھی پیش آتی ہیں کہ ایک شخص کو ہلاک کرنا تشریعی قانون کے خلاف ہے مگر تکوینی قانون میں اس خاص واقعہ کو عام تشریعی قانون سے مستثنی کرکے اس شخص کے لئے جائز کردیا گیا جس کو اس تکوینی خدمت پر مامور فرمایا گیا ہے ایسے حالات میں شرعی قوانین کے علماء اس استثنائی حکم سے واقف نہیں ہوتے اور وہ اس کو حرام کہنے پر مجبور ہوتے ہیں اور جو شخص تکوینی طور پر اس قانون سے مستثنی کردیا گیا ہے وہ اپنی جگہ حق پر ہوتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ جہاں یہ تضاد نظر آتا ہے وہ درحقیقت تضاد نہیں ہوتا بعض واقعات جزئیہ کا عام قانون شریعت سے استثناء ہوتا ہے ابوحیان نے بحرمحیط میں فرمایا الجمھور علی ان الخضر نبی وکان علمہ معرفۃ بواطن قد اوحیت الیہ وعلم موسیٰ الاحکام والفتیا بالظاہر (بحرمحیط ص 147 ج 6) اس لئے یہ بھی ضروری ہے کہ یہ استثناء بذریعہ وحی نبوت ہو کسی ولی کا کشف والہام ایسا استثناء کرنے کے لئے ہرگز کافی نہیں۔
اسی لئے حضرت خضر ؑ کا لڑکے کو بظاہر ناحق قتل کرنا ظاہر شریعت میں حرام تھا لیکن حضرت خضر تکوینی طور پر اس قانون سے مستثنی کرکے مامور کئے گئے تھے ان پر کسی غیر نبی کے کشف والہام کو قیاس کرکے کسی حرام کو حلال سمجھنا جیسے بعض جاہل صوفیوں میں مشہور ہے بالکل بےدینی اور اسلام سے بغاوت ہے۔
ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن عباس ؓ کا یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ نجدہ حروری (خارجی) نے ابن عباس کو خط لکھا کہ خضر ؑ نے لڑکے نابالغ کو کیسے قتل کردیا جب کہ نبی کریم ﷺ نے نابالغ کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے حضرت ابن عباس ؓ نے جواب میں لکھا کہ اگر کسی بچے کے متعلق تمہیں وہ علم حاصل ہوجائے جو موسیٰ ؑ کے عالم (یعنی خضر علیہ السلام) کو حاصل ہوا تھا تو تمہارے لئے بھی نابالغ کا قتل جائز ہوجائے گا مطلب یہ تھا کہ خضر ؑ کو تو بذریعہ وحی نبوت اس کا علم ہوا تھا وہ اب کسی کو ہو نہیں سکتا کیونکہ نبوت ختم ہوچکی ہے آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا جس کو بذریعہ وحی اس قسم کے واقعات کے متعلق کسی حکم خداوندی سے کسی خاص شخص کو مستثنی کرنے کا علم ہو سکے (مظہری) اس واقعہ سے بھی یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ کسی شخص کو کسی حکم شرعی سے مستثنی قرار دینے کا نبی صاحب وحی کے سوا کسی کو حق نہیں۔
Top